لقمان شیخ
رْوبْرو
دنیا کے مہذب ممالک میں جب بھی کوئی جمہوری حکومت اپنا اقتدار مکمل کرتی ہے تو یہ بات طے ہوتی ہے اب وہاں کے آئین کے مطابق انتخابات ہونگے اور جو بھی جماعت جیتے گی وہ حکومت بنائے گی. بد قسمتی سے پاکستان میں اب نئی ریت چل پڑی ہے، تحریک انصاف کے چیئرمین نے جب صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں تو اسکے بعد یہ طے تھا کہ نوے دن میں انتخابات کروائے جائیں گے حتیٰ کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی یہ فیصلہ دیا کہ 14 مئی کو انتخابات کروائے جائیں مگر اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا. پنجاب کی نگران حکومت کی مدت بھی ختم ہو گئی مگر وہ اب وہ غیر آئینی طور پر کام کر رہے ہیں اور کوئی صحافی یا دانشور سوال کرنے والا نہیں، آئین کے ٹھیکیداروں کو چپ سادھ گئی ہے. اب اگلا جھٹکا پی ڈی ایم کو لگنے والا ہے. نو اگست کو جب اسمبلی تحلیل ہو گی اسکے بعد معلوم نہیں کہ نوے دن بعد انتخابات ہونگے. ملک میں ایک گو مکو کی کیفیت ہے. غیر یقینی کی صورتحال بڑھتی جا رہی ہے. یار دوستوں کا یہی کہنا ہے کہ ملک کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے انتخابات نوے دن بعد ممکن نہیں. البتہ اپریل میں ملک میں عام انتخابات کا سوچا جا سکتا ہے وہ بھی تب اگر اقتصادی اعشاریے مثبت نظر آئے.
پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور چیر مین تحریک انصاف کو عدالت کی جانب سے غیر قانونی طور پر سرکاری تحائف فروخت کرنے کے جرم میں تین سال قید کی سزا کے بعد اٹک جیل میں قید کر دیا گیا ہے.
70 سالہ کرکٹر سے سیاست دان بننے والے پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 سے 2022 تک اپنی وزارت عظمیٰ کا غلط استعمال کرتے ہوئے سرکاری قبضے میں تحفے کی خرید و فروخت کی جو بیرون ملک دوروں کے دوران موصول ہوئے اور جن کی مالیت 140 ملین پاکستانی روپے ($ 497,500) سے زیادہ تھی۔
جج ہمایوں دلاور نے فیصلے میں لکھا، ’’عمران خان کی ایمانی شک و شبہ سے بالاتر ہے‘‘۔ "وہ جان بوجھ کر قومی خزانے سے حاصل کردہ فوائد کو چھپا کر بدعنوانی کے مجرم ہیں.
البتہ اس عجلت میں کیے گئے فیصلے کے بعد فاضل جج بیرونیملک روانہ ہوگئے ہیں. سینئر وکیل اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ یہ عمران خان کے خلاف یہ فیصلہ اہمیت نہیں رکھتا، سپریم کورٹ میں اس فیصلے کی دھجیاں اڑ جائیں گی اور عمران خان رہا ہو جائیں گے.اس سے پہلے جب خان صاحب کو گرفتار کیا گیا تو ردعمل میں 9 مئی کا واقعہ رونما ہوا. اس کے بعد تحریک انصاف پر ایسا جھرلو پھرا کہ انکے رہنما اور کارکنان یا تو جیل میں چلے گئے یا ملک سے بھاگ گئے. خان صاحب کی حالیہ گرفتاری کے بعد انکے کارکنان نے سوشل میڈیا پر تو بہت ور مچایا مگر میدان میں آنے کی ہمت نہ جتا سکے. بحرحال پاکستانی سیاست میں زولفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بعد عمران خان چوتھے ایسے سیاسی رہنما ہیں جو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد عدالتی فیصلے کا نشانہ بن کر جیل جا چکے ہیں.
کچھ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ عمران خان کو نا اہل قرار دے کر ہی انتخابات میں جایا جا سکتا ہے.کسی کی خواہش ہیکہ لیول پلے فیلڈ ہو تا کہ ملک میں انتخابات ہو سکیں.
یار لوگوں کا کہنا ہے کہ نئی مردم شماری کی آڑ میں انتخابات پہلے ہی التوا کا شکار ہو گئے ہیں. اب شبہ یہ ہے کہ جب نئی مردم شماری ہو گی تو اسکے بھی ملک عام انتخابات نہیں ہونگے. یار لوگوں کا کہنا ہے کہ چاروں کے گورنرز کو بھی تبدیل کر دیا جائے گا. خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی کے تبدیلی کے امکانات ہیں. وفاق میں جیسے ہی نگران حکومت آئے گی بیور کریسی میں تبدیلیاں ہونگی. پنجاب میں ایک نومولود سیاسی جماعت کو اسکے پسندیدہ افسران کی لسٹ دی جائے گی اور اپنے اپنے حلقوں میں ان افسران کو ایڈجسٹ کریں گے. نگران وزیراعظم کون ہو گا ابھی تک کسی کو معلوم نہیں. البتہ جو بھی ہو وہ وزارت عظمیٰ کے مزے ایک طویل عرصے تک لے گا. یہ بات تو اب طے ہے کہ نومبر میں عام انتخابات نہیں ہونے جا رہے.
اب انتخابات اپریل میں ہوتے ہیں یا اس سے بھی دیر، کچھ کہا نہیں جا سکتا. میرے خیال میں اپریل میں ملک میں عام انتخابات کے امکانات قوی ہیں. کیونکہ آئین نام کی جو کتاب ہے اس پر عمل کروانے کے لئے سپریم کورٹ میں ایک ایسا شخص براجمان ہو گا جو آئین و قانون کی بالا دستی کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گا.