سیاست در سیاست کا غول

انتظار سحر …جاوید انتظار
pytislamabad@gmail.com
 2014 میں جب تحریک انصاف اور عمران خان نے اسلام آباد میں 126 دن کا تاریخی دھرنا دیا تھا۔ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کو دھرنے کا اتحادی بنا کر ڈی۔چوک میں بٹھا دیا گیا۔روزانہ ٹی وی چینلز پر عمران خان کی دو دو گھنٹے کی تقاریر کو ملک بھر کے کونے کونے میں سنایا جاتا رہا۔اسکے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔اسی طرح تحریک انصاف کے دور حکومت میں سینٹ کے چئیرمین کے انتخاب میں اکثریت اپوزیشن جماعتوں کے ہونے کے باوجود انکو ہرانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف میں تھوک کے حساب سے انگنت سرمایہ جاگیردار اور الیکٹیبلز کو شامل کروانے ،تحریک انصاف کے عہدے اور ٹکٹ دلوانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔پھر قومی اور صوبائی منتخب آزاد اراکین اسمبلی کو پی ٹی آئی میں شامل کروانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔2018 میں تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وزیر اعظم پر کامیاب عدم اعتماد کروانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔تحریک انصاف کے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔تحریک انصاف کی پنجاب اور کے پی کے حکومت ختم کروانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔سینٹ میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کو تحریک انصاف کی حمایت سے پاس کروانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔ صوبائی اسمبلیوں کے بروقت ضمنی انتخابات نہ کروانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔9 اور 10 مئی کے واقعات کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔استحکام پاکستان اور تحریک انصاف پارلیمنٹیرین بنوانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔نیشنل پریس کلب کی لال جادوائی کرسی پر بٹھا کر تحریک انصاف چھڑوانے اور سیاست سے دستبرداری کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔پہلے مسلم لیگ ن اور اب تحریک انصاف کو زیر عتاب لانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔ اتحادی حکومت کو بنوانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔یہ صرف ایک دہائی کا تذکرہ کررہا ہوں جس میں ہر ہر سیاست کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔اس سے ایک دہائی اور پیچھے جائیں تو پرویزمشرف کے وردی میں ملبوس صدارتی ریفرنڈم کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔2000 میں عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کا لارا لگاکر پرویزمشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی حمایت کروانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کروانے اور پیپلز پارٹی کو اقتدار دلوانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔پیپلز پارٹی کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سے پرو اسٹیبلشمنٹ بدلاو کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔نواز شریف کو لیڈر اور وزیر اعظم بنوانے کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔گویا جب سے پاکستان بنا اس وقت سے سیاست کے پیچھے سیاست کسی اور کی تھی۔
مندرجہ بالا چیدہ چیدہ سلگتے ہوئے زمینی حقائق وضاحت کے لئے کافی ہیں کہ جو بظاہر سامنے نظر آتا ہے۔ویسا کچھ بھی نہیں ہوتا کرپشن نہ بھی پکڑی جائے تو اسکے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ہر دور میں غریب و متوسط ملک کا غالب اکٹریتی طبقہ مہنگائی کی چکی میں پستے پستے آنکھوں میں تبدیلی کے خواب سجائے روتا چیختا چلاتا مرتا رہا ہے۔غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا رہا ہے۔ملک کا کوئی ایک بھی ایسا محکمہ نہیں جو کرپشن سے پاک ہو۔اب تو یہ عالم ہے کہ لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ بجلی گیس. کے بل جمع کروائیں روٹی کھائیں یا بچوں کو پڑھائیں؟ معاشی دباو اور ذہنی اذیت میں مبتلا قوم ہجوم بنکر انصاف انسانیت اور خود داری سے کوسوں دور کھڑی نظر آتی ہے۔ملک کا بچہ بچہ بغیر کسی جرم کیبیرونی قرضوں اور سود کی زنجیروں میں قید ہے۔سیاست کے پیچھے سیاست کرنے والوں کے منہ کو طاقت اور اقتدار کا خون لگا ہوا ہے۔حق بات کرنے والوں کو خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ملک بھی ایک ادارہ ہوتا ہے۔ادارہ ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ادارہ چلانے والے ہوتے ہیں۔
جس طرح سیاست کے پیچھے سیاست کسی اور کی ہوتی ہے۔اسی طرح ہر بات کے پیچھے ایک بات ہوتی ہے اصل وہی بات ہوتی ہے۔جب تک سیاست کے پیچھے سیاست کرنے والوں کا ہر بات کے پیچھے بات کو سمجھنے والے احتساب نہیں کرتے۔ملکی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے دور دور امکانات کا وجود پیدا نہیں ہوگا۔وجود کے پیدا ہونے کے فطری فارمولے کو سمجھنے اور عمل کرنے کی جتنی شدت سے ضرورت آج ہے شاید ماضی میں نہ تھی۔جپ کسی چیز کی فکر کی جاتی ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے تو اسکا وجود پیدا ہو جاتا ہے۔یہی وجود کے پیدا ہونے کا فطری فارمولا ہے۔جس کے لئے جدوجہد اور قربانی درکار ہے۔اپنی ذات کی قید سے نکل کر ریاست کو بچانے کی سوچ، فکر و عمل سے ملکی تعمیر و ترقی کا وجود پیدا ہوگا۔آج ہم نے ایسا نہ کیا تو آنے والی نسل ہم پر تھو تھو کرے گی۔ظلم کی سیاہ رات خود بخود کبھی ختم نہیں ہوتی۔ کامیابی کے وجود کے فطری فارمولے فکر و عمل کو اپنی ذات کا حصہ بنائے بغیر اب کوئی آپشن ہمارے پاس باقی نہیں بچا۔
جو یقین کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرایا وہ قدم قدم پہ بہک گئے 
انسان اور قوم ثابت قدم اور کچھ کرنے کے لئے پر عزم ہوں تو راستے خود بخود نکل کر منزل کو تلاش کر لیتے ہیں۔آپکی منزل وہاں تک ہی ہوتی ہے جہاں تک آپ ہمت نہیں ہارتے۔یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں منزلیں انکی ہیں جو تھکتے نہیں۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی لکیریں

منظر الحق Manzarhaque100@gmail.com  قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا ...