حج کا سفر بنیادی طور پر مسلمانوں کے عقیدے کا ایک اہم جزو ہے، کیونکہ یہ ارکان اسلام میں سے ایک رکن سے ہے۔حج صرف مکہ کی سیر، کعبہ شریف کا طواف اور رمی کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ سفر مبارک تو خوبصورت جذبات، عقیدت ومحبت اور بے مثال روحانیت سے مالا مال ہوتا ہے۔ مکہ مکرمہ وہ مقدس مقام ہے جہاں دنیا کے کونے کونے سےاہل ایمان حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں اور بالآخر روح کی بالیدگی اور خالق حقیقی کے ساتھ تجدید عہد کے ساتھ لوٹتے ہیں۔
امسال اللہ رب العزت نے مجھے بھی حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائی۔ بے شک سفر حج محبت اور خوشی کے جذبات کے ساتھ ساتھ کچھ کٹھن مراحل سے گزرنے کا نام ہے اور حاجی اس سفر کی تکالیف کو خاطر میں ہی نہیں لاتا۔ اس کا مطمع نظر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا ہوتی ہے۔
حج میں ابھی صرف 6 دن باقی تھے اور ہم فیصلہ نہ کر سکے کہ حج سرکاری سکیم سے کیا جائے یا پرائیویٹ ٹوور آپریٹر کے ذریعے کیا جائے؟ اس سلسلہ میں رفقاءسے صلاح مشورے کئے اور اکثر نے سرکاری حج سکیم سے منع کیا کہ بہت سے مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ مگر میرے ایک عزیز نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ اس مرتبہ وفاقی وزیر مذہبی امور سینیٹر طلحہ محمود ہیں اور وہ جانفشانی سے حج کی سرکاری سطح پر تیاریاں کر رہے ہیں اور حجاج کرام کی خدمت کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اس لئے سرکاری حج کے انتظامات بہترین ہونگے اس لئے آپ سرکاری سکیم میں رقم جمع کرائیں اور سرکاری سکیم میں حج کی سعادت حاصل کریں۔ اس مشورے پر سرکاری سکیم کا فارم حاصل کرنے جب وزارت پہنچی تو وہاں وزارت کے ملازمین نے مجھے بہترین رسپانس دیا اور دیگر اصحاب نے بھی اس بارے میں اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا۔
آخر کار رقم جمع کرانے کے بعد مختصر وقت میں ہم نے حج کی تیاری کی۔ مگر یہ خوف پھر بھی دامن گیر رہا کہ معلوم نہیں سرکاری حج کیسا ہوگا کتنے مسائل درپیش ہونگے؟بالآخر مقررہ وقت پر لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ہم ایئرپورٹ پہنچے۔ ائر پورٹ پر ہمیں قلیل وقت میں بورڈنگ دے دی گئی۔ وزارت مذہبی امور کے عملے اور روڈ ٹو مکہ سے سہولیات فراہم کرنے کیلئے آئے ہوئے سعودی عملے کی معاونت سے ہم نے جلد ہی کلیئرنس حاصل کی اور لبیک اللہم لبیک کا ورد کرتے ہوئے جہاز پر سوار ہوئے اور 5 گھنٹے کی مسافت طے کرتے ہوئے جدہ ائر پورٹ پر اتر گئے۔جدہ ائیرپورٹ پراترتے ہوئے خوشی کے ساتھ ساتھ مسائل کے خوف کا پہلو بھی ہمراہ رہا۔ مگر ایئرپورٹ سے باہر آتے ہی سعودی حکومت کا عملہ ہمیں خوش آمدید کہنے کیلئے موجود تھا۔ ترحبی کلمات کے ساتھ ساتھ انھوں نے حجاج کرام کیلئے آب زمزم کی بوتلیں مختلف زبانوں میں چھپے حج عمرہ کے بارے میں کتابچے اور چھتریاں پیش کیں۔ حجاج کرام کی سعودی عرب آمد کی تمام تر کارروائی ہمیں بہترین ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بٹھانے کے دوران کی گئی۔ اسکے بعد پر ہمیں مکہ مکرمہ میں رہائش گاہ پر پہنچایا گیا اور ہوٹل میں داخل ہوتے ہی ہمیں کھانا پیش کیا گیا اور اسکے بعد اپنے اپنے سامان کے ساتھ پہلے سے الاٹ کیے گئے کمروں میں پہنچا دیا گیا۔
ہم نے اپنی رہائش گاہ پر کچھ دیر آرام کیا اور پھر عمرے کی سعادت حاصل کرنے کیلئے حرم پاک چلے گئے جہاں ہم نے تھکن سے چور ہونے کے باوجود خوشی خوشی اپنا عمرہ مکمل کیا اور عالم اسلام پاکستان اپنے اہل خانہ اور عزیز واقارب کیلئے رو رو کر خوب دعائیں مانگیں۔عمرہ کی ادائیگی کے بعد دوبارہ رہائش پر آگئے کھانا کھایا۔ کھانے میں ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ گھر کا کھانا ہے یا ہوٹل کا؟ کیونکہ کھانا مزیدار اور لذیذ تھا ساتھ سویٹ ڈش نے مزہ دوبالا کر دیا۔ دو تین دن کے بعد ہوٹل سے حج کا احرام باندھا اور حج کے لیے منیٰ روانہ ہوگئے۔ لبیک اللھم لبیک کی صدائیں چاروں اطراف گونج رہی تھیں۔ ایک ہی لباس میں لاکھوں افراد کا اکٹھ خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔ ہمیں ٹرین کی سہولت میسر تھی، ہزاروں گاڑیاں سفر کر رہی تھیں مگر ساتھ ساتھ حجاج کرام کی بڑی تعداد پیدل بھی سفر کر رہی تھی۔
پاکستانی حجاج کیلئے منٰی کے خیموں میں بھی انتظامات اچھے تھے۔ تین وقت بہترین کھانا بھی میسر تھا۔ وہاں رات دعا اور عبادات میں گزاری اور علی الصبح گاڑی میں وقوف عرفات کیلئے میدان عرفات کی طرف چل پڑے۔ غروب آفتاب کے بعد عرفات کے میدان سے ہماری واپسی ہوئی رات مزدلفہ میں جاگ کر گزاری۔ وہاں بھی ہمیں عبادات میں کسی طرح کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ میدان سجا ہوا تھا ہر طرف حجاج عبادت کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔فجر کے وقت ہم ٹرین میں منیٰ کی طرف آئے وہاں جمرات شیطان کو کنکریاں ماریں اور کیمپ کی طرف چل پڑے واپسی کا راستہ نہایت طویل تھا۔ چلتے چلتے گھنٹوں گزر گئے۔ ہر طرف ہر زبان ونسل کے لاکھوں افراد بس ایک ہی سمت میں چل رہے تھے۔ آخر کار یہ طویل سفر پیدل طے کیا اور منیٰ کیمپ میں واپس آ گئے۔ قربانی کی اطلاع کے بعد غسل کیا اور احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو گئے۔ پھر طواف زیارت کیا۔ وہاں سے واپسی کا طویل ترین پیدل سفر کرکے واپس منی آگئے۔
ایام حج گزارنے کے بعد ہم دوبارہ مکہ مکرمہ میں اپنی رہائش گاہ پر آگئے۔ اس دوران سرکاری حج اسکیم اور پرائیویٹ ٹوور آپریٹر کے ذریعے آئے ہوئے حجاج کا بھی موازنہ کرتی رہی۔ پرائیویٹ سکیم سے آئے ہوئے اکثر حجاج کو پریشان پایا۔ کھانے اور میڈیکل کی سہولیات کے فقدان کے بارے شکایات کرتے ہوئے دیکھا مگر سرکاری سکیم سے آئے ہوئے حجاج ہر طرح سے مطمئن نظر آئے بلکہ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے حجاج بھی پاکستان حج مشن کی میڈیکل سہولیات اور بس سروس سے مستفید ہونے آ رہے تھے۔ پاکستانی خدام اور معاونین حجاج بھی اپنی خدمات بہترین انداز سے ادا کرتے ہوئے پائے گئے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سینیٹر محمد طلحہ محمود اپنی ٹیم کے ہمراہ ہر مقام پر پہنچے اور ان کے پی ایس طاہر لطیف صاحب بھی حجاج کرام کے درمیان ان کی خدمت کیلئے نہایت متحرک نظر آئے۔
ہم نے اپنی واپسی کی فلائٹ ری شیڈول کروائی تاکہ وقت مقررہ سے کچھ دن پہلے واپس آ سکیں مہینے بھر کے اس سفر میں ہم نے حسب استطاعت کئی عمرے بھی کئے۔حج کے دوران سعودی حکومت کے انتظامات بھی قابل دید رہے۔ حرم شریف، مسجد عائشہ اور مسجد جعرانہ کیلئے سعودی حکومت نے فری بس سروس کا انتظام کیا ہوا تھا۔مختلف زبان ونسل کے لاکھوں کے مجمع کو بہترین انداز میں سنبھالنا اور ان کے آرام کا خیال رکھتے ہوئے ان کی رہنمائی کرنا اور تمام سہولیات فراہم کرنا یہ صرف سعودی حکومت ہی کا کام ہے جس کیلئے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کی حکومت بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہے۔
4 دن کیلئے ہم نے مدینہ منورہ کا سفر کیا وزارت مذہبی امور نے یہاں بھی پاکستانی حجاج کیلئے بہترین سہولیات فراہم کیں۔ مدینہ منورہ میں ہمارا قیام مختصر تھا اور نسک ایپ سے ریاض الجنة میں میری باری آنا مشکل لگ رہا تھا یہاں طاہر لطیف صاحب کی خصوصی کوشش کے باعث میں نے ریاض الجنہ میں بھی نوافل ادا کئے، جہاں میں نے ان تمام ساتھیوں کا سلام پیش کیا جنھوں نے اس کیلئے خاص طور پر کہا تھا۔ پھر پاکستان کیلئے اپنے اہل خانہ اور عزیز واقارب کے علاوہ ان سب کے لیے خصوصی دعا کی جن کی وجہ سے یہ حاضری نصیب ہوئی تھی۔
مدینہ منورہ میں رہائش گاہ سے مسجد نبوی تک کے راستے میں بھی سعودی حکومت نے زبردست انتظامات کئے ہوئے تھے جگہ جگہ پینے کے پانی کا انتظام بھی کیا گیا تھا کیونکہ گرمی کی شدت میں بار بار پانی کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔
بالآخر مہینہ بھر کے اس یادگار اور خوبصورت سفر کے بعد ہم بخیریت واپس پہنچے. پاکستانی اور سعودی حکومتوں کے حجاج کے لئے بہترین انتظامات پر دل بہت خوش ہوا اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ اپنے گھر کا دیدار بار بار نصیب فرمائے کیونکہ جو لوگ ایک مرتبہ بھی بیت اللہ کی زیارت کرتے ہیں وہ دوبارہ سرتاپا مشتاقِ زیارت رہتے ہیں۔