چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف ایک ریفرنس عدالت کو ارسال کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے توشہ خانہ کے تحائف کے سلسلے میں اپنے گوشوارے میں غلط بیانی کرکے الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا انکے خلاف فوجداری مقدمہ چلایا جائے- اس مقدمے کی سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے کی- پاکستان کا عدالتی نظام فرسودہ ناقص اور کمزور ہے- اس عدالتی نظام میں وکلاءآئین اور قوانین کی شقوں کا سہارا لے کر تاخیری حربے استعمال کرکے مقدمات کو غیر معمولی طول دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں- پاکستان کے عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد قائم نہیں ہو سکا- ناقص عدالتی نظام پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے- ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے اس کیس میں عمران خان کو 3 سال قید ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی اور پولیس کو احکامات جاری کیے کہ عمران خان کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں زیر حراست رکھا جائے - الیکشن کمیشن پاکستان نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ سزا کے بعد چئیرمین پی ٹی آئی تحریک انصاف کی سربراہی نہیں کرسکتے - وہ اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں - یوسف رضا گیلانی، میاں نواز شریف کے بعد عمران خان تیسرے وزیر اعظم ہیں جن کو قید اور نا اہلی کی سزا سنائی گئی ہے- پاکستان کے وکلاءنے میاں نواز شریف کی سزا کو لیگل قرار نہیں دیا تھا - عمران خان کی سزا کے بارے میں بھی عمومی تاثر یہ ہے کہ انکے گوشوارے میں بے ضابطگی کے الزام میں 3 سال سزا بلا جواز ہے۔ عمران خان کو سپریم کورٹ نے صادق اور امین قرار دیا تھا۔ توشہ خانہ کیس میں سزا کے بعد ان کی ساکھ مجروح ہوئی ہے- عمران خان سے عوام توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنے دور حکومت کو شفاف بنائیں گے- افسوس آج پاکستان کے دوسرے رہنماوں کی طرح ان کی دیانت کے بارے میں بھی شکوک وشبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے - کاش وہ پاکستان اور دنیا کے عوام کے سامنے مثالی رول ماڈل پیش کر سکتے- قومی لٹیروں کو نشان عبرت بناتے - گورنر ہاوس کو چلڈرن پارک اور وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹی بناتے۔ توشہ خانے کے تحفوں کیلئے شفاف نیلامی کا قانون بناتے - وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر دیتے پانی کے چھوٹے ڈیمز تعمیر کرتے تو پاکستان کی تاریخ میں انہیں شاندار الفاظ میں یاد رکھا جاتا -
آئین اور قانون کی حکمرانی کا المیہ ملاحظہ فرمائیے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم صادر کیا جس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی- جب کہ ایڈیشنل سیشن جج کے حکم نامہ کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے اس پر عمل درآمد کر دیا گیا- عمران خان کی سزا کے بعد بھی انکے ووٹ بنک پر کوئی فرق نہیں پڑے گا- پشاور کے ایک بلدیاتی حلقے کے نتائج سے یہ حقیقت سامنے آگئی ہے- مردم شماری اور حلقہ بندی کے نام پر انتخابات کو مو¿خر کیا جائیگا- اتحادی حکومت نے عمران خان کیخلاف 200 مقدمات قائم کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا ہے- عمران خان کی ایک مقدمہ میں ضمانت کے بعد انہیں کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیا جائیگا - یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جائیگا جب تک عمران خان یو ٹرن لے کر 5 سال کیلئے سیاست سے علیحدگی قبول نہ کر لیں- تحریک انصاف کا مرکزی اور صوبائی تنظیمی سٹرکچر ٹوٹ پھوٹ چکا ہے- انہوں نے اگر تحریک انصاف کو یونین کونسل کی سطح پر منظم کیا ہوتا تو آج ان کی جماعت بہتر حالت میں ہوتی- خوف کے سائے میں تحریک انصاف کے لیڈروں کیلئے سیاسی سرگرمیوں میں جوش وخروش پیدا کرنا ممکن نہیں ہوگا- کرشماتی لیڈروں کی یہی کمزوری ہوتی ہے کہ وہ پارٹی تنظیم کو اہمیت نہیں دیتے اور کروڑوں عوام کو جماعت کے ساتھ جوڑنے کی بجائے اپنی شخصیت کے ساتھ منسلک کر لیتے ہیں- عمران خان کا ووٹ بنک تو قائم دائم رہے گا- ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے 9 سال بعد پی پی پی اقتدار میں آگئی تھی- پی پی پی کے نظریاتی کارکنوں کی قربانیوں اور بے نظیر بھٹو شہید کی دلیرانہ قیادت نے پی پی پی کو زندہ اور متحرک رکھا تھا - اگلے انتخابات میں اگر عمران خان انتخابی مہم کی قیادت نہ کر سکے تو تحریک انصاف اکثریت حاصل کرنے سے قاصر رہے گی-
پاکستان کی سیاست میں غصہ اور اشتعال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے -یہ غصہ پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے- نوجوان اگر مایوس ہو کر انتہا پسندی پر مائل ہو گے یا اگر خدا نخواستہ انتہا پسندوں کے سہولت کار بن گئے تو دہشت گردی کی کارروائیوں میں غیر معمولی اضافہ بھی ہو سکتا ہے- اس ہولناک صورت حال سے بچنے کے دو راستے ہیں- پہلا یہ کہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع دیے جائیں- عوام کا حق حکمرانی تسلیم کیا جائے اور شفاف انتخابات کرا کے عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کر دیا جائے - دوسرا راستہ یہ ہے کہ دو سال کیلئے نیک نام غیر جانبدار نگران حکومت تشکیل دی جائے جو عوام کو مہنگائی کے شکنجے سے باہر نکالے- ادارہ جاتی اصلاحات کرے- نوجوانوں کے غصے اور مایوسی کو ختم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے - شفاف کردار کے حامل اہل افراد کو نگران کابینہ میں شامل کرکے عوام کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کی جا سکتی ہے-اطلاعات کے مطابق مختلف سیاسی جماعتوں کے نظریاتی کارکن سنجیدگی کے ساتھ سوچ بچار کر رہے ہیں کہ پاکستان کو روایتی شخصی اور خاندانی سیاست سے باہر نکالا جائے- شخصیات کا آلہ کار بننے کی بجائے عوامی ایجنڈے پر عوامی اتحاد قائم کیا جائے تاکہ سیاست پر خاندانوں کی بجائے عوام کی بالادستی قائم ہو سکے اور خاندانوں کی بجائے پاکستان کے عوام اجتماعی ترقی کر سکیں-ایک ایسے نظام کے تسلسل کو جاری رکھنا جو بار بار ناکام ہوچکا ہے پرلے درجے کی حماقت ہے-

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...