مہنگائی کا بڑھتا ہوا عفریت

مہنگائی کے عفریت نے عام آدمی کا جینا مشکل بنا دیا ہے کوئی بھی چیز ایسی نہیں، جو مارکیٹ میں سستے داموں مل جاتی ہو، کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر ارزاں نرخوں پر گھی، چینی، آٹا اور دالیں دستیاب ہیں۔ لیکن یوٹیلٹی سٹورز پر جاﺅ تو ”ریک“ بیشتر اشیاءسے خالی نظر آتے ہیں۔ دالیں اور دیگر اشیائ، جو دستیاب ہوتی ہیں ا±ن کا معیار اتنا ناقص ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔یہ تو سرکاری سٹورز کا حال ہے۔ عام دکانوں پر بھی معیاری اشیاءنایاب ہیں۔ غریب جائیں تو کہاں جائیں۔ بیچارے صارفین کا تو کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ پی ڈی ایم حکومت نے اب جاتے جاتے غریب عوام پر ڈیزل اور پٹرول کا بھی بم گرا دیا ہے۔ جس سے ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھے ہیں اور اس کے اثرات روزمرہ کی استعمال ہونے والی ضروریات زندگی کی اشیاءپر بھی پڑے ہیں۔ مڈل اور متوسط طبقہ کے لوگ جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بدحال تھے۔ اب مزید بدحالی کی طرف دھکیل دئیے گئے ہیں۔
اس قوم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، کیا ہونیوالا ہے؟ کوئی بھی اس کا علم نہیں رکھتا۔ بڑے بڑے دانشور اور علم معاشیات کے ماہر بھی اب فیل ہو چکے ہیں۔ کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں کہ ہم ان گردشی ایام سے کب باہر نکلیں گے۔ کیونکہ ہماری بدبختی کا یہ سفر اب دہائیوں پر محیط ہو چکا ہے۔ جس ملک کی معاشیات تباہی کے دہانے پر ہوں۔ کرنسی اپنی قدر کھو چکی ہو، ا±س ملک کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سابق بینکار ہوں۔ معاشیات پر ہمیشہ گہری نظر رہی ہے۔ پورے وثوق اور ایمانداری سے کہہ سکتا ہوں کہ بیچارگی کے ایسے دن پہلے کبھی نہیں دیکھے، جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت شدید ترین مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ پٹرول، ڈیزل کی قیمتیں مزید بڑھ جانے سے ہرطرف مہنگائی کا سونامی آیا ہوا ہے۔ پاکستان کے قومی ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے مطابق عمومی کنزیومر پرائس انڈیکس کے اعتبار سے مہنگائی میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 27.6فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ا س کالم میں ہم مہنگائی سے متعلق کچھ سوالات کے جواب دینگے اور دیکھیں گے کہ کیا آئندہ آنے والے کچھ عرصے میں عوام کو مہنگائی سے کچھ ریلیف ملے گایا نہیں؟سادہ زبان میں کہیں تو مہنگائی کسی چیز کی قیمت میں اضافے کو کہتے ہیں۔ یعنی اگر اس سال آپ کو دودھ 100روپے لٹر روپے مل رہا ہے اور اگلے سال اسکی قیمت 150روپے فی لٹر ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دودھ 50روپے مہنگا ہوا ہے۔ دیگر اعدادوشمار کے علاوہ مہنگائی کا تعین بھی قومی ادارہ شماریات کے ذمے ہے۔ اس کیلئے بنیادی ضروریات اور خوراک سے متعلق کئی چیزوں کی ایک تصوراتی باسکٹ بنائی جاتی ہے۔ پھر دیکھا جاتا ہے کہ پہلے ایک ہفتے، ماہ یا سال میں اس ”باسکٹ“ کو خریدنے کیلئے کتنے پیسوں کی ضرورت تھی اور اب کتنے پیسوں کی ضرورت ہے۔ اس باسکٹ یا ٹوکری میں شامل اشیاءمیں خوراک کی مد میں چکن، گندم، چاول، آٹا، پیاز، دودھ، دالیں، سبزیاں اور پکانے کا آئل جیسی اشیاءشامل ہیں۔ اسی طرح کچھ چیزیں خوراک نہیں، مگر بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ مثلاً گھر کا کرایہ، بجلی، ایندھن اور ٹرانسپورٹ وغیرہ۔ قومی ادارہ شماریات کے مطابق جنوری سے اب تک قومی سطح پر اس پوری باسکٹ کی قیمت میں 27.55فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
تاہم چند ماہرین کیمطابق کچھ چیزوں میں اضافہ اس ڈیٹا سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ ہمیشہ مہنگائی کی درست عکاسی نہیں کرتا لیکن فی الوقت پاکستان میں مہنگائی دیگر ممالک کی طرح اسی طریقے سے جانچی جاتی ہے۔ ایک مستند فنانشل تجزیہ کار کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں۔ ا±ن کے مطابق بڑھتے ہوئے ملکی و غیر ملکی قرضے، سرکاری اداروں کو بھاری سبسڈیز سمیت دیگر کئی غلط اقتصادی فیصلے اور گورننس کے متعدد مسائل اس کی وجہ ہیں اور جن کی بدولت ہی ہم آج ان ب±رے اقتصادی حالات تک پہنچے ہیں۔
یوکرین میں امریکہ کی پراکسی جنگ، چین اور امریکہ کے تنازعے میں اضافے سمیت دیگر جیو پولیٹیکل معاملات کا بھی اثر مہنگائی پر پڑ رہا ہے جو سب سے زیادہ ایندھن اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نظر آ رہا ہے چونکہ پاکستان اپنی گندم کا بہت بڑا حصہ بیرون ملک سے درآمد کرتا ہے جبکہ خوردنی تیل سمیت پام آئل، وغیرہ بھی ہم زیادہ تر دوسرے ممالک سے امپورٹ کرتے ہیں اس لیے اگر ان چیزوں کی قیمتیں عالمی سطح پر بڑھتی ہیں تو ہمیں یہ چیزیں پاکستان میں بھی مہنگی ملیں گی۔ علاوہ ازیں ڈالر کے بڑھتے ریٹ کی وجہ سے بھی جو چیز پہلے کم پیسوں میں پاکستان پہنچ رہی تھی اب اس کے لیے کہیں زیادہ پیسے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔کسی بھی ملک کا مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے شرح سود میں اضافہ کرتا ہے جس کی وجہ سے معیشت کچھ حد تک سست ہو جاتی ہے اور چیزوں کی قیمتیں نیچے آنے لگتی ہیں۔ سٹیٹ بینک نے پہلے ہی شرح سود 17فیصد مقرر کر رکھی ہے۔ جو پاکستانی تاریخ میں شاید ہی کبھی اتنی بلند رہی ہو لیکن مہنگائی پھر بھی قابو میں نہیں آ رہی۔
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں ”پاکستان کے کیس میں روایتی طریقہ¿ کار شاید وہ نتائج فراہم نہ کر پائیں جن کی توقع ہے بلکہ شاید یہ مسائل میں اضافہ کر دیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ جو پاکستان خریدتا ہے اور انہیں خریدنے کیلئے درکار ڈالر بھی مہنگے ہو رہے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر عائشہ کے مطابق پاکستان کو اس کے بنیادی مسائل حل کرنے اور مستحکم ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے کیونکہ اب ”مرہم پٹیوں“ سے کام نہیں چلے گا۔
موجودہ حالات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی چیزیں اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ لوگوں نے یا تو وہ خریدنی چھوڑ دی ہیں یا لوگ انکے متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ مختلف اقتصادی ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ طلب میں کمی اگر صرف قیمتوں کی وجہ سے ہو تو انکے واپس بڑھنے کا امکان رہتا ہے۔ جب تک لوگ مستقل طور پر ان کے متبادل پر نہ منتقل ہو جائیں۔سوال بہت سے ہیں۔ حکومت اور اقتصادی ماہرین کو ان سوالوں کا جواب اور حل تلاش کرنا ہو گا۔ ورنہ مسائل بڑھتے جائیں گے جس سے مختلف نوعیت کے مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ ہم سب کو مل کر ”میثاق معیشت“ کے حوالے سے کچھ کرنا ہو گا ورنہ ہم اقتصادی گہرائیوں میں گرتے چلے جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن