پاکستان کو اس وقت جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت کئی تخریب کار عناصر افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے انخلاءکے بعد سے وہاں حالات یکسر بدل چکے ہیں اور عبوری طور پر قائم ہونے والی طالبان کی حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے جیلوں میں بند افراد کو رہا کر کے کھل کھیلنے کی اجازت دیدی ہے۔ اس کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کے دوسرے ہمسایوں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشکلات پاکستان کے لیے پیدا ہورہی ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی طرف سے بار بار کہا تو جاتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں مسلسل ایسی کارروائیاں ہورہی ہیں جن میں افغانستان سے آئے ہوئے دہشت گرد ملوث ہوتے ہیں۔
سوموار کو پشاور میں خیبرپختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کے مشیران اور نمائندوں کے گرینڈ جرگہ سے خطاب کے دوران پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے دیگر باتوں کے علاوہ اس معاملے کو خصوصی موضوع بناتے ہوئے بات کی۔ اس موقع پر کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی آئین میں حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ذات کی ہے، یہ خوارج کون سی شریعت لاناچاہتے ہیں؟ کسی بھی گروہ یا جتھے سے بات نہیں کی جائے گی، جنھوں نے دین کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا انھیں جواب دینا ہوگا، افغان مہاجرین کو پاکستان میں پاکستان کے قوانین کے مطابق رہنا ہوگا۔ جنرل عاصم منیر نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ میں اور میری بہادر فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خون کے آخری قطرے تک لڑے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اللہ کے راستے میں جہادکر رہے ہیں اور کامیابی ہماری ہی ہوگی۔
پاکستانی فوج کے سربراہ نے اپنے خطاب کے دوران بجا طور پر افغان حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احسان کابدلہ احسان کے سوا کچھ اور ہو سکتا ہے؟ جنرل عاصم منیر نے قرآن مجید کی ایک آیت سے اخذ کیے گئے اس سوال کو سامنے رکھ کر یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر اسلام کے آفاقی پیغام کے قائل نہیں ہیں اور ان کو کھل کھیلنے کی اجازت دینے والی افغان حکومت کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ پاکستان نے گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران افغانستان اور اس کے شہریوں کے ساتھ کیسے کیسے احسانات کیے ہیں، اگر وہ صرف قرآن مجید کے پیغام پر ہی گہری نظر ڈال لیں تو انھیں اندازہ ہو جائے گا کہ اپنے محسنوں کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے کا مطلب قرآن مجید میں بیان کیے گئے اللہ تعالیٰ کے احکام سے رو گردانی سمجھا جائے گا جس کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جنرل عاصم منیر خطاب تو گرینڈ جرگے سے کررہے تھے لیکن اس کے ذریعے انھوں نے افغانستان کی عبوری حکومت پر یہ بات دو ٹوک انداز میں واضح کردی کہ پاکستان کی طرف سے کسی بھی گروہ یا جتھے سے بات نہیں کی جائے گی، مذاکرات ہوئے توصرف پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے درمیان ہوں گے۔ یہ بات واضح کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی لیکن اس دہشت گرد گروہ نے اس پیشکش کو پاکستان کی کمزوری سمجھ لیا جس کی وجہ سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوا۔ پاک فوج ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کے ذریعے ملک کے چپے چپے سے دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کا صفایا کر کے یہ بتا چکی ہے کہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی کی کارروائیاں قبول نہیں کی جائیں گی اور ان کارروائیوں میں ملوث افراد ہی نہیں بلکہ ان کی حمایت کرنے والوں کے خلاف بھی بھرپور آپریشن اور ایکشن کیا جائے گا۔
گرینڈ جرگے سے خطاب کے دوران سپہ سالار نے یہ بھی کہا کہ حکومت پاکستان کی منظوری کے بعد قبائل کے انضمام کے مسائل کے حل کے لیے ایک سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا۔ ہم قبائلی عوام کی معاشی ترقی کے حوالے سے ترقیاتی منصوبوں میں ان کی شرکت کو یقینی بنائیں گے۔ جنرل عاصم منیر کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ مل کر نئے ضم شدہ اضلاع میں 81 ارب روپے کی مالیت کے ترقیاتی اور فلاح وبہبود کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ مل کر نئے ضم شدہ اضلاع میں پولیس کے 43 منصوبوں کو 7 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا اور 54 زیر تعمیر منصوبوں کے جلد مکمل ہونے میں تمام تر مدد فراہم کی جائے گی۔ ان منصوبوں کا اعلان یقینا خوش آئند ہے اس اعلان کا وفاقی یا صوبائی حکومت کی طرف سے کیا جانا زیادہ مفید ہوتا اور ان علاقوں کے رہنے والے عوام اس معاملے کو اس زاویے سے دیکھتے کہ جن ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جارہا ہے وہ حکومت پاکستان کی ایک جامع پالیسی کے تحت ان علاقوں اور وہاں کے عوام کی بہتری کے لیے ہے۔
پاک فوج کے سربراہ نے پشاور میں گرینڈ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ صرف ان کا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا پیغام ہے جس پر افغان حکومت کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں امن صرف اسی صورت میں قائم ہوسکتا ہے جب افغان حکومت اپنی سرزمین کو اپنے ہمسایوں کے خلاف استعمال نہ ہونے دے اور گروہوں کو آگے کرنے کی بجائے خود ہمسایہ ممالک کی حکومتوں سے مذاکرات کرے۔ دنیا میں اس وقت کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جو افغانستان کی عبوری حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار ہو اور اس کی ایک بڑی وجہ ان عناصر کی کارروائیاں ہیں جو امن دشمن ممالک کی آشیرباد سے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت ان عناصر پر قابو پانے کے لیے جتنی جلد اقدامات کرے گی اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔