ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا،آئی ایم ایف معاہدہ، بیرونی تعلقات بحالی حکومتی کامیابیاں

اسلام آباد (عترت جعفری ) پی ٹی ائی کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کرانے کے بعد ڈیڑھ سال قبل پاکستان مسلم لیگ نون کے ص صدر اور اس وقت کے قومی اسمبلی  اپوزیشن لیڈر  شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی تھی،  حکومت نے ڈیڑھ سال میں دو بجٹ منظور  کئے ،  اتحادی حکومت جو آج  اسمبلی کو تحلیل کرنے کی ایڈوائس کے بعد ختم ہو جائے گی نے اس قلیل معیاد میں کامیابیاں بھی سمیٹیں اور بعض ایسے اقدامات بھی ہوئے جن کے  مضمرات اتحادی جماعتوں کو اپنی آئندہ کی سیاست میں اٹھانا پڑیں گے، جس وقت اتحادی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت ملک کو ڈیفالٹ کی صورتحال کا سامنا تھا، امریکہ یورپی یونین چین  ،گلف کی ریاستوں سمیت مختلف ممالک کے ساتھ ملکی  تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، اور ملک معاشی طور پر ایک بحرانی کیفیت کا سامنا کر رہا تھا، شہباز شریف حکومت کے ان ڈیڑھ سال میں اگر تین بڑی کامیابیوں کو گنا جائے تو ان میں سے ایک  ملک  کو ڈیفالٹ سے بچانا ، ائی ایم ایف کے معاہدے کو بحال کرانا اور بیرونی ممالک جن میں خاص طور پر  چین اور گلف کی ریاستیں امریکہ شامل ہیں ان سے تعلقات کی بحالی شامل  ہیں ، اپریل بھی 2022ء میں جب وزیر خزانہ کے طور پر مفتا  ح اسماعیل  نے ذمہ داریاں سنبھالی تھیں تو انہوں نے فوری طور پر ائی ایم ایف کے ساتھ معطل شدہ  پروگرام کو بھال کرانے کے لئے  رابطہ کیا  اور پے در پے تیل کے نرخ بڑھائے ،اور منی بجٹ پاس کرایا، وہ گزشتہ حکومت کے ائی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو بحال کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے، اس دور میں پاکستان کے لیے قرض کی ایک ارب ڈالر کی رقم بھی جاری ہوئی،  ملک کے وزیر خزانہ کو تبدیل کیا گیا اور سینٹر اسحاق  ڈار کو وزیر خزانہ بنایا گیا، اس عرصے میں ملک  کوبارشوں کے ایک طوفانی سلسلے کا سامنا ہوا جس نے معاشی بحالی کے پروگرام کو متاثر کیا، ائی ایم ایف کے قرض پروگرام کا نواں ریویو  پورا نہ  کیا جا سکا اور 30  جون  کو یہ پروگرام  ختم ہو گیا ،،  آئی ایم ایف سے 9 ماہ  کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ سے پہلے کی  معیاد پاکستان کے لیے بہت مشکل ثابت ہوئی اس دوران روپے کی قدر تیزی سے کم ہوتی رہی،  اور مہنگائی بے قابو ہو گئی ،سینیٹر اسحاق ڈار کی یہ کامیابی  سمجھی  جائے گی کہ انہوں نے اس 10ماہ کے انتہائی نازک دور میں ملک کی تمام ادائیگیاں بروقت کی اور دنیا کو یہ پیغام دیتے رہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوگا، اور پاکستان ائی ایم ایف سٹینڈ  بائی ارینجمنٹ لینے میں کامیاب ہو گیا  ڈیفالٹ کی کہانی اب ماضی کا  قصہ بن گئی ہے، ڈیڑھ سال کے عرصے میں سی پیک کے اندر ایک نئی جان ڈالی گئی، اور اس کے فیز ٹو پر عمل شروع ہو گیا ہے، اس سال اکتوبر میں ایم ایل ون جو ریلوے کا اہم ترین منصوبہ ہے اس کے  معاہدہ پر سی پیک کے تحت دستخط ہونے جا رہے ہیں، گلف کے ممالک جن میں سعودی عرب سرفہرست ہے کے ساتھ تعلقات بحال ہوئے اور سعودی عرب یو اے ای کی طرف سے پاکستان کو ڈیپازٹ دیا گیا ہے، چین کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوئی اور چین نے پاکستان کو مختلف شکلوں میں پانچ ارب ڈالر سے زیادہ مہیا  کیے ، اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں حکومت کا کسی بھی سطح پر کوئی  مالی سکینڈل سامنے نہیں ایا، جبکہ  روس سے تیل کی  کی درامد سمیت بہت ہی اہم معاہدے کیے گئے، جبکہ ایئرپورٹس کی اؤٹ سورسنگ اور کراچی  کنٹینر ٹرمینل   معاہدے  بھی عنقریب ہونے والے ہیں،، ملک کے اندر سرمایہ کاری کے فروغ  اور پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے ایک سرمایہ کاری فیسلٹیشن کونسل بھی قائم کی گئی، ،حکومت کی طرف سے عوام کو مہنگائی  سے بچانے میں قطعی کامیابی حاصل نہیں ہوئی، تیل اور بجلی کے نرخوں کو مسلسل بڑھایا جاتا رہا، اب  گیس کے نرخ بڑھنے والے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ا شیا ء د نوش کی مہنگائی اسمان سے باتیں کرتی رہی، حکومت ناجائز منافع خوری   پر قابو پانے کے لیے کوئی مناسب قانون سازی نہیں کر سکی، ملک کی معاشی گروتھ میں اضافہ نہیں کیا جا سکا  ،پاکستان جیسے ممالک جہاں غربت مسلسل بڑھ رہی ہے، گروتھ کی شرح کو چھ سے اٹھ فیصد کے درمیان رکھنا لازمی ہو چکا ہے،  مالی سال میںملکی گروتھ ایک فیصد سے بھی کم  رہی، ملک برامدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا سکا، حکومت نے اپنے اخری چند ہفتوں میں زراعت سرمایہ کاری اور ائی ٹی کے فروغ کے لیے بعض اہم اقدامات اور پالیسیاں متعارف کروائی ہیں تاہم ان کے اثرات مرتب ہونے میں ابھی چند سال لگیں گے، ملک کے قرضوں کی صورتحال بھی  خطرناک  ہے بیرونی قرضوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک قرضوں کا بوجھ بھی تسلسل سے بڑھا، نگر ان حکومت کو ان تمام امور پر بہت ہی احتیاط سے قدم بڑھانا ہوں گے کیونکہ مارچ تک ہم سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت ہیں اور غلطی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...