کشمیر کی آزادی ہماری مضبوط سے ہی ممکن ہے 

امیر محمد خان
     کشمیر پرتو بھارت اپنا قبضہ اسوقت سے کیا ہوا ہے جس روز بر صغیر کے نقشہ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اور بھارت کے تین رنگا پرچم کا ظہور ہواتھا ، اس روز سے آج تک بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں ایک جنگ کہا جاتا ہے ایسی ہوئی تھی جس میں کہا گیا کہ کشمیر اب ہمارا ہوگا، مگر ”غیبی طاقتوں“نے پاکستان کا پلڑا بھاری دیکھ کر وہ جنگ بند کرادی ، بھارت ایک جانب اپنی معیشت کو مضبوط کرتا رہا اور دوسری جانب کشمیر میں ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرتا رہا ، بھارت اپنی معیشت کو مضبوط اسلئے کرتا رہا ہندو معاشی ماہرین جو ہمارے ماہرین سے زیادہ محب وطن ہیںوہ حکومت کو یہ بتا تے رہے کہ آنے والی دنیامیں صرف اسکی بات سنی جائے گی جسکاکاروبار مضوط ہوگا ، معیشت مضبوط ہوگی ، پاکستان کشمیر یوںکو اپنا حق خودارادیت دلانے کیلئے اپنی سفارتی کوششیں کرتا رہا ، ایک زمانے میں پاکستانی وفود دنیا بھر گئے انسانی حقوق کی تنظیموںسے ، یورپی ممالک میںسربراہوں سے ملاقتیں بھی کیں ”سفارتی حمائت “حاصل کرنے کیلئے ، مگر ان دوروںسے پاکستان کی کمزور معیشت کے اربوں نہیں تو کروڑوںڈالرز خرچ ہوگئے ہمارے ملک میںروز بروز سیاسی ”چق چق“ اتنی بڑھتی جارہی ہے ہماری سفارتی حمائت صرف اور صرف سال میں ایک دفعہ اقوام متحدہ کے اجلاس میںہمارے سربراہ کی تقریر جس میں کشمیر کا مسئلہ اہم ہوتا ہے یہ عمل کئی سالوںسے ہورہا ہے ، چاہے نواز شریف ہوں، یا 9 مئی کے شاہکار کپتان تقریر وں کی تعریف کرنا چاہئے ان تقریروں سے قربانیاںدینے والے کشمیروں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اسکے بعد ٹائیں ٹائیںفش۔ کشمیر کے دن سال میں دو تین آتے ہیں اس میں وزارت خارجہ کے حکم پر تنخواہ دار محب وطن سفارت خانے ، قونصل خانے تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں بغیر تنخواہ کے محب وطن کمیونٹی ہر ملک اور شہر میں تقاریب میں شرکت کرتی ہے جہاں صدر ، وزیر اعظم ، وزیر خارجہ کے دن کی مناسبت سے پیغامات سنائے جاتے ہیں،اور ٹھنڈے پکوڑے سموسے کھاکرگھر چلے جاتے ہیں ۔ پہلے بھی لکھا ہے اور ہر ایک لکھتا ہے ایک مضبوط معیشت کے بغیر ہماری سنوائی کہیں نہیں ، دنیا اس وقت مارکیٹ دیکھتی ہے معاشی فائدہ دیکھتی ہے پھر توجہ دیتی ہے ۔ ہم اپنی کمزور معیشت میں قرض در قرض اتنے دھنس چکے ہیںکہ اللہ کی مدد ہی ہمارے معاملات کو بہتری کی طرف لیجاسکتی ہے بقول وزیر اعظم شہباز شریف کے کہ اب تو دوست ممالک سے بھی قرض در قرض ،ادائیگیوںکو موخر کرنے کی درخواستوںپر شرم محسوس ہوتی ہے ۔ یہ ایک سچے وزیر اعظم کا بیان ہے ۔دوسری جانب ہماری اشرافیہ کروڑںنہیں بلکہ اربو ںاس ملک کا لوٹ کر ڈکار بھی نہیںمارتے انکے لئے کوئی قانون نہیں ، قانونی اداروں کا کوئی ”سو موٹو “ایکش “ نہیں اس لوٹ مار پر مثال کے طور پر بجلی فراہم کرنے والے اداروںپر جس میں دسیوں اشرافیہ ملوث ہیںاور بغیر بجلی فراہم کئے اربو ں ڈالرز کے طلب گارہیں۔ اندرونی طور پر انتظامی معاملات اتنے ناقص ہیں کہ معیشت کی درستگی کی کیا امید لگائی جائے۔ اس سال بھارتی مضبوط تسلط ہے 1826 یعنی پانچ سال مکمل ہوگئے ہیں پاکستان نے سفارتی سطح پر مندرجہ بالا دن منانے کے کیا کارہائے نمایا ںانجام دیا ہے اسلئے کشمیر پر ہماری سفارتی امداد ، اور قائد اعظم کی خواہش کی تکمیل صرف اور صرف معیشت کی مضبوطی سے ہی ممکن ہے ۔ ہمارے مد مقابل ایک خوفزدہ اور ڈر پوک ملک ہے۔پچھلی پون صدی سے مسئلہ کشمیر کے بذریعہ رائے شماری حل نہ ہوپانے کی واحد وجہ بھارتی حکمرانوں کا یقین کی حد تک
 پہنچا ہوا یہ خوف ہے کہ کشمیریوں کو عالمی ادارے کی قراردادوں کے مطابق بھارت یا پاکستان سے الحاق کا موقع دیا گیا تو ان کافیصلہ واضح طور پر پاکستان کے حق میں ہوگا۔ کشمیریوں کی پاکستان سے الحاق کی پرزور خواہش کا مکمل ادراک رکھنے کی وجہ ہی سے پچھلے کئی عشروں کے دوران کوئی بھی بھارتی حکومت تنازع کشمیر کے منصفانہ تصفیے کی خاطر پاکستان کے ساتھ پرامن مذاکرات کرنے پر تیار نہیں ہوئی۔ اس کے بجائے نسل پرستانہ پالیسیوں اور ظلم و تشدد کے ہتھکنڈوں سے کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو کچلنے کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔ آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے اقدامات عمل میں لائے جاتے رہے۔ اس کے بعد بھی استصواب رائے کا نتیجہ بھارت کے حق میں برآمد ہونے کے امکانات نظر نہ آئے تو آئین کی وہ دفعہ ہی اُڑا دی گئی جو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی ضامن تھی۔ اس کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر فی الحقیقت دنیا کی سب سے بڑی جیل بنی ہوئی ہے۔ مودی حکومت کی نسلی اور مذہبی عصبیت کی پالیسیاں کشمیر ہی نہیں پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔ مسلمان اور دیگر اقلیتیں ہندو بالادستی اور نسل پرستی کا شکار ہیں۔اختلاف رائے کی ہر آواز کو خاموش کرنا،سیاسی قیادت کو ڈرانا دھمکانا، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو من مانے طور پر لاقانونیت کا ملزم قرار دے کر ان کے خلاف مقدمے قائم کرنا، مودی حکومت کے وہ ہتھکنڈے ہیں جنہیں وہ کشمیر پر اپنے تسلط کو مستحکم کرنے کی خاطر پوری ڈھٹائی کے ساتھ استعمال کررہی ہے۔سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کے جھوٹے الزامات اور اس ضمن میں پاکستان اور اس کے خفیہ اداروں کے خلاف پروپیگنڈا بھی نئی دہلی کا معمول ہے جس کا بنیادی مقصدبین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ بھارتی حکومت کی دیدہ دلیری یہاں تک جاپہنچی ہے کہ اس نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان پر بے بنیاد دعوے کرنے اور پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے جو اسکی خام خیالی سے زیادہ نہیں، وہ ہماری بہادر افواج سے کئی مرتبہ اپنی جنگ کی خواہش، دہشت گردی کی سزا بھگت چکا ہے۔ جبکہ کشمیریوں کو ان کی حقیقی قیادت سے محروم رکھنے کیلئے جابرانہ قوانین سے کام لیا جارہا ہے۔دوسری جانب کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بین الاقومی برادری کو خاموش رکھنے کیلئے بھارت کی معاشی صلاحیت کو ہتھیار بنا لیاگیا ہے۔تاہم عالمی برادری کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کشمیر میں فوجی طاقت اور نسل پرستی کے حربے اب مزید جاری نہیں رہیں گے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق اہل کشمیر کو جلد ازجلد دلایا جائے گا کیونکہ ایسا نہ کیا گیا تو دنیا اندھیرنگری بن کر رہ جائے گی اور امن وانصاف کا تصور بھی مٹ جائے گا۔بھارت کے مقبوضہ وادی میں غیر قانونی اقدامات اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کو آج 5سال مکمل ہو گئے مگربھارت آج بھی ظلم و جبر، قابض فوج کے ہاتھوں تشدد و گرفتاریوں اور ریاستی دہشت گردی کے باوجود اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کے مقابلے میں ہزاروں کشمیری اپنی جانیں قربان کرکے آج بھی اپنا جذبہ آزادی زندہ رکھے ہوئے ہیں، جو بھارتی استبداد کے باوجود ماند نہیں پڑا۔مقبوضہ وادی کا بچہ بچہ، بزرگ، خواتین و جوان ہر قیمت پر بھارت سے آزادی کے خواہاں ہیں۔ بھارتی قابض افواج نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی اور میڈیا پر کڑی پابندیاں لگا کر، مقبوضہ جموں و کشمیر کو کرہ ارض کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

عالمی یوم جمہوریت اور پاکستان 

جمہوریت آزاد،مضبوط اور خوشحال وفاقی ریاست کی ضمانت ہے۔جمہوریت عوامی خواہشات کے مطابق نظام ریاست کی تشکیل کا نظام ہے۔ یہ ...