11اگست: بانی پاکستان کا اقلیتوں سے متعلق یاد گار خطاب 

تاریخ … یوسف برکت        
yosufbarkat@gmail.com

11گست ملک بھر کی اقلیتیں خصوصی تقریبات کریں اور چرچز میں ملک بھر میں پاکستان کی سلامی اور دفاع کے لئے دعائیں کی جائیں گی۔ قائد اعظم محمد علی جنا ح نے 11اگست کو اپنی تقریر میں فرمایا''پاکستان میں اقلیتوں کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی۔ خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان کا مذہب عقیدہ اور ایمان پاکستان میں بالکل سلامت اور محفوظ رہے گا۔ ان کی عبادت کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ ان کے مذہب عقیدے جان و مال اور انکی ثقافت کا مناسب تحفظ ہوگا۔ وہ بلا لحاظ رنگ و نسل ہر اعتبار سے پاکستان کے شہری ہیں۔ اقلیتوں سے اچھا سلوک:۔ چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت ور رواداری کا حامل ہے۔ بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں۔ ان کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں وہ اس ریاست میں شہریوں کی طرح رہیں گے۔ ہمارے ہاں بعض لوگوں نے بھی یہ کوشش کی کہ بانی پاکستان کے ان تاریخی الفاظ کو'' غائب ''کر دیا جائے ، یہ الفاظ آج بھی پوری توانائی کے ساتھ ''زندہ'' ہیں۔ قائد اعظم اورعلامہ اقبال کی فکر کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ متحدہ ہندوستان میں ایسی ریاست کے خواہاں تھے۔ جو بین الاقوامی معاشروں میں تہذیب و تمدن کی بنیاد پر تقلید کی مثال بن سکے۔ اس مقصد کے لئے مہذب دنیاکے پہلے آئین یعنی میثاق مدینہ کو عملی زندگی کی بنیا د بنا کر آسانی سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔رہبر اسلام ? نے میثاق مدینہ کے ذریعے پہلی اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو مکمل سیاسی اور سماجی حقوق سے سر فراز کیا۔ مصنف اورتجزیہ کار یاسر لطیف ہمدانی کہتے ہیں کہ محمد علی جناح نے صرف 11اگست کا خطاب ہی نہیں لگ بھگ 33تقریروں میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ہی بات کی ہے۔ اقلیتیںپاکستان سے نہ صرف والہانہ محبت اور عقیدت رکھی ہیں بلکہ ملک کی خوشحالی میں شانہ بشانہ ساتھ دے رہیں ہیں۔ سیاسی تاریخ میں پہلی بار 11اگست کو صدر آصف علی زرداری کی طرف سے مینارٹی ڈے منانے کا اعلان کیا تھا۔قائد اعظم کو اقلیتوں سے بے پناہ عقیدت تھی۔ پاکستان کا آئین اقلیتوں سمیت تمام پاکستانیوں کو یکساں حقوق دیتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں رہنے والوں کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں اور پاکستان ایک جدید فلاحی اسلامی ریاست ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اقلیتوں کو حقوق دیئے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ بلا تفریق مذہب ، ملت ہر ایک کے احترام سے بھی معاشرے میں یکجہتی پید اہو سکتی ہے۔ دین اسلام انسانیت کامذہب ہے اور رواداری کا درس دیتا ہے۔ اسلام اقلیتوں سے مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کے تعصب اور تفریق کے خلاف ہے۔ قائد اعظم کو ایک استقبالیہ 1942کو لائل پور میں دیا گیا۔ اگلے ہی روز مسیحی کمیونٹی کی طرف سے ایک اور استقبالیہ کا اہتمام لاہور میں دیا گیا۔ جس سے قائد اعظم بہت خوش تھے۔ انہوں نے مسیحی برادری کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ مسیحی برادری نے قائد کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے آپ کے اعزاز میں کئی استقبالیے دیئے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پہلی بار 1931ئ میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران اقلیتوں کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے بشمول ہندوستان کے مسیحوں نے سرآغا خان کی قیادت میں ایک معاہدہ کیاتھا۔ جو تاریخ پاک و ہند میں ''اقلیتوں کا معاہدہ'' کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کو تحریک آزادی کے دوران اقلیتوں کی مشترکہ عملی جدوجہد بھی قرار دیا تھا۔ 22دسمبر 1939کو قائداعظم کی کال پر مسلمان نمائندوں نے کانگرس وزارتوں سے استعفے دیئے اور ''یوم نجات '' منایا گیا،تو کانگرس یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ ''یوم نجات''میں صرف مسلمان ہی نہیںبلکہ پارسی، مسیحوں اورلاکھ کی تعداد میںشیڈول کاسٹ بھی شریک ہوئے۔ہندوستانی مسیحی واحد اقلیت تھی ،جو تمام مسلم لیگ اور قائداعظم کا ساتھ دے رہی تھی اور قیام پاکستان کی حامی رہی۔ 23مارچ 1940کوجب منٹو پارک لاہور میں تاریخی قرارداد پاکستان منظور ہوئی،تو اس جلسے میں پور ے ہندوستان ہزاروں مسیحی شریک ہوئے تھے۔ مسیحی برادری اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ قائداعظم سچ کے علمدار ہیں۔ مسیحی رہنماوںنے لاہور میں قائداعظم کو استقبالیہ دیاتھا اور انہیں مسیحی برادری کی مکمل حمایت کایقین دلایا۔ دیوان ایس پی سنگھا نے 21جون 1947کو شملہ پہاڑی لاہور کے نزدیک اپنی رہائش گاہ پر قائداعظم کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا اس دعوت میں محترمہ فاطمہ جناح اورسردار عبدالرب نشتر بھی شریک ہوئے۔اس موقع پر انہیں ایس پی سنگھا نے قائداعظم کویقین دلایا کہ ہم کبھی آپ کی حمایت سے قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ آئینی طور پر پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہونے کے ساتھ تمام حقوق حاصل ہیں۔ اس وقت اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نہ صرف سرکاری وغیرہ سرکاری اداروں میں اعلی ٰ عہدوں پر فائز ہے۔ بلکہ مرکزی اور صوبائی سطح پربھی اقتدار میں شریک ہے۔ جسٹس دراب پٹیل ، جسٹس کارنیلس، جسٹس بھگواں داس ، جسٹس آرچی سن، جسٹس چارلس لولو، جسٹس ریمنڈ ایم۔ایل شاہانی سیشن جج ڈیوڈ فضل دین۔چی۔این جوسٹوا،آئزک جیکب اورمریم صفیر کی خدمات قابل ِ تحسین ہیں۔اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کی بنیاد پر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیااوردوسروں کے لیئے مثال بنے۔اس وقت صحافت تعلیم ،پولیس ، فوج ،عدالت سمیت زندگی کے تمام شعبوں میںاقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد ملکی ترقی میںبڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔جسٹس دین محمد منیر ظفراللہ اور مجر دفاع سردار بلد پونگھ باونڈری کمیشن کے رکن تھے۔ کمیشن کے روبرو بہادر ایس چی سنگھا سی گیسن او رفضل الہی نے پنجاب کے مسیحوں کی آبادی کوپاکستان کی آبادی میں شامل کیئے جانے کا موقف ریکارڈ کرایا۔ چوہدری چندولعل نے نہ صرف وکالت کی بلکہ گورداسپور،پٹھان کوٹ کے علاقوں کا خود دورہ کرکے وہاں کے مسیحوں کی آبادی کو پاکستان میں شامل کیئے جانے کے بارے میں قرار دیں منظور کرواکر باونڈری کمیشن کوپیش کی۔ پنجاب کو پاکستان میں نمائندوں نے قائداعظم کی مکمل حمایت کی۔ قائداعظم نے اپنی رابطہ مہم میں مسیحی رہنمائ چوہدری چندولعل سے ملاقات کی۔ جب پنجاب کو اسمبلی میں ووٹنگ کی بنیاد پر پاکستان یا ہندوستان میں شال کرنے کامرحلہ آیا۔ توپنجاب اسمبلی میں یونیٹ پارٹی اور مسلم لیگ کے ووٹ برابر تھے۔ جو ن1947میںپنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوا تو88مسلم لیگ ممبران کے ساتھ 03مسیحی ممبران نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔
اس طرح پنجاب کو پاکستان کے ساتھ شامل کرنے کے حق میں 91اور ہندوستان کے حق میں88ووٹ شامل ہیں روزنامہ جنگ کی خصوصی اشاعت میں لکھا ہے۔بعض لوگوں کے مطابق انگریز حکومت نے تقسیم ہند کے وقت مسیحوں کو پنجاب کی کچھ تحصیلوں پر مشتمل علیحدہ ریاست کی پیش کش بھی کی تھی جن میں مسیحوں کی اکثریت تھی۔لیکن مسیحی رہنماوں نے انگریزوں کی پیش کش ٹھکرا کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ اورقائداعظم ان کے حقوق کے صیحیح محافظ ہیں۔ 1951میں منتخب کیا گیاہونے والے مسلم لیگ کی حکومت میں چوہدری چند ولال کو ڈپٹی سپیکر اسمبلی منتخب کیا گیا جب کہ بی ایل رلیا رام فضل الہی، مسز ایس پی سنگھا اراکین پنجاب اسمبلی رہے۔سی۔ای گبن قومی اسمبلی پاکستان کے ڈپٹی سپیکر بھی رہے اور ملک کے بہترین پالیمنٹیرین بھی تصور کیئے گئے کرسچن ویلئر ایسو ایشن سمسن منوہاکی قیادت میں سیاسی حقوق کے لیئے سرگرم عمل تھے۔تحریک پاکستان سے گولڈ میڈل سے بھی نواز اگیا۔ مگر ہم صرف اور صرف یہ کہ آج وہ پنجاب جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب صرف اور صرف سنگھا صاحب کی بدولت کا حصہ ہے،ورنہ سب کچھ مختلف ہوتا۔ہمیں 11اگست اقلیتوں کے عظیم دن کے موقع پر مسیحی برادری کی نوازشات کو ضرور مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ موجودہ حکومت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بہت سے اقدامات کر رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن