جمعة المبارک‘ 3 صفر المظفر1446ھ ‘   9 اگست 2024

ملک میں آبادی کا بم پھٹ چکا ہے: وزیر خزا ہ اور گزیب۔
اس بم کو پھٹ ا ہی تھا۔ یہ وہ بارودی سر گیں ہیں جو ہم ے خود اپ ی راہوں میں بچھائی ہیں۔ کت ے احمق ہیں ہم لوگ کہ خود اپ ی تباہی کا ا تظام کرتے جا رہے ہیں۔ ابھی تک تو ہم اس بارودی سر گ سے خود کو بچاتے بچاتے چل رہے تھے مگر 2024ءمیں بالآخر اس پر پاﺅں پڑ ہی گیا اور اب حکومت ے بھی کہہ دیا ہے کہ ہماری خیر ہیں۔ یادش بخیر 1970ءسے ہی حکومت ے بچوں کی تعداد میں کمی کے پروگرام شروع کئے تھے۔ دو بچے خوشحال گھرا ہ کا سبق پڑھا ا شروع کر دیا تھا د رات 2 بچے تے سکھ ہزار کی اہمیت بیا کی جاتی رہی۔ مگر ہمارے یم خوا دہ مولوی حضرات اور اپ ی مردا گی کا رعب ڈال ے والے احمقوں ے اسے خدائی اختیار میں مداخلت قرار دے کر کم بچے پیدا کر ے کی مخالفت کچھ اس ا داز میں کی کہ سادہ لوح پاکستا ی خوفزدہ ہو گئے اور آج تک ہیں۔ وہی ب گلہ دیش جس کی تعریف میں آج ہم رطب اللسا ہیں جب ہم سے علیحدہ ہوا تو اس کی آبادی 7 کروڑ کے لگ بھگ تھی اور ہماری 5 کروڑ۔ مگر ب گالی ٹھہرے عقلم د سوجھ بوجھ رکھ ے والے ا ہوں ے آبادی کے اس بم کو پھٹ ے سے پہلے اکارہ کر دیا۔ آج اس کی آبادی بمشکل 16 کروڑ ہے اور ہم عقل سے محروم لوگ 24 کروڑ ہو گئے ہیں۔ ملک کے دستیاب وسائل اب یہ بوجھ ہیں برداشت کر رہے۔ اس لیے اب خوراک ، تعلیم ، روزگار سب کی قلت ہو گئی ہے۔ کھا ے والے زیادہ ہیں اور زمی کم پڑ گئی ہے۔ ہرچیز کی قلت ے واقعی بم پھٹ ے کے بعد کا م ظر دکھا دیا ہے۔ اب اس تباہی کا خمیازہ سب بھگت رہے ہیں وہ بھی ج کے دو بچے ہیں وہ بھی ج کے 9 بچے ہیں۔ د یا ے آبادی پر ک ٹرول کر کے ترقی کی۔ وہاں سب شہریوں کو روزگار، تعلیم اور میڈیکل کی سہولیات وافر دستیاب ہیں جبکہ ہم لاغر، بیمار، اخوا دہ ا کروڑوں بچوں کو اچھا مستقبل کہاں سے دیں گے۔ خدا ہ کرے اب مالتھس کے ظریہ آبادی کے مطابق آفات ارضی و سماوی ، ج گ اور بھوک و گ و بیماریوں کے ہاتھوں آبادی میں کمی کا چکر چلے۔
قتل کا ملزم 17 سال بعد رہان
شاید اسے ہی کہتے ہیں فوری ا صاف کی فراہمی۔ یہ تو شکر ہے قتل کا ملزم ز دہ ہے ، ور ہ پس مرگ رہائی کا حکم اس کے لواحقی کے زخموں کو ایک مرتبہ پھر کرید کر تازہ کر دیتا۔ ایسے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ا صاف کا قتل کسے کہتے ہیں۔ اب اس کیس کو ہی دیکھ لیں مقتول کا 2007ءمیں قتل ہوا جبکہ 2008ءمیں اس کے مدعیوں ے صلح کر لی۔ مگر م اسب قا و ی معاو ت ہ ہو ے کی وجہ سے یہ کیس یو ہی ا صاف کے ایوا وں میں گم یا فائلوں تلے دبا رہا اور ملزم کی ز دگی کے 17 قیمتی سال ز داں کی ذر ہو گئے۔ اب کوئی بتائے کہ اس پر ”مٹ جائے گی مخلوق تو ا صاف کرو گے“ کہا جا سکتا ہے یا ہیں۔ اب تو لگتا ہے ہمارا پورا پورا ظام ا صاف صرف اور صرف سیاسی مقدمات س ے کے لیے مختص ہو گیا ہے۔ باقی سارے کیس اب ٹھپ پڑے ہیں۔ ا صاف میں تاخیر بذات خود ا صاف کا قتل ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو یہ قتل عام عام ہے۔ کئی ملزما کو مر ے کے بعد رہائی کا پروا ہ ملتا ہے۔ مگر وہ اس خوشی سے محروم رہتے ہیں اور ا کے گھر والے ایک مرتبہ پھر رو ے لگتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ ب چ ے رہائی کا حکم تو دیدیا مگر اس تاخیر کا مداوا کو کرے گا۔ بیتے ہوئے 17 سال کو لا کر واپس دے سکتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر سیاسی جماعتیں عدالت آ پہ چتی ہیں۔ روزا ہ کی ب یاد پر رات کو بھی ا کے کیس س ے جاتے ہیں تو باقی کیس کیا پاکستا یوں کے ہیں ا کے معاملات اسی برق رفتاری سے کیوں ہیں س ے جاتے۔ کیا ا کی ز دگی اور مسائل عدالتوں کے زدیک کوئی اہمیت ہیں رکھتے۔ اگر رکھتے ہیں تو باقیوں کی بھی برق رفتار تیز سماعت یقی ی ب ائی جائے یہ سالوں کی تاخیر قصا دہ ہوتی ہے۔ جس کا خمیازہ ز دہ ا سا وں کو بھگت ا پڑتا ہے۔
کراچی میں بارش ے ترقیاتی کاموں کا پول کھول دیا۔
تالاب ب ی سڑکیں اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کر کھ ڈرات کا قشہ پیش کر رہی ہیں۔ اس سے تو موہ جوڈارو کی قدیم گلیاں اور سڑکیں لاکھ درجہ بہتر ہیں۔ جہاں ہزاروں سال بعد آج بھی پا ی جمع ہیں ہوتا اور بارش سے ا ہیں کوئی قصا ہیں پہ چتا۔ اس کے برعکس س دھ کے بڑے جدید شہر کا حال سب کے سام ے ہے جہاں مضبوط اور پائیدار سڑکیں بھی گڑھوں کے باعث سفر کے قابل ہیں رہیں۔ ا ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر چل ے والی ٹریفک میں سفر کر ے والے بمشکل صحیح سلامت گھر یا آفس آتے ہیں۔ ور ہ سر، کمر اور ٹا گوں کا درد ا ہیں کہیں کا ہیں چھوڑتا۔ ذہ ی کوفت علیحدہ ہوتی ہے۔ اب میئر ے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کی ہے کہ یہ سب کیسے ہوا۔ اقص تعمیراتی کام کر ے والوں کو پکڑیں تو کسی رپورٹ کی ضرورت ہیں رہے گی مگر ایسا کرے گا کو ۔ یہ ٹھیکے دی ے والے اور لی ے والے بھی تو حکومت کے ہی اپ ے ب دے ہیں۔ گزشتہ د وں بارش کے بعد لاہور کی حالت پر ط ز کر ے والے ڈپٹی میئر کراچی کو اب پا ی اتر ے کے بعد دیکھ ا چاہیے۔ بہرحال کراچی کے شہری پریشا ہیں کہ ا سڑکوں کی دوبارہ تعمیر و مرمت کب ہو گی کیوں کہ ابھی بارش برسا ے والا سسٹم موجود ہے۔ جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں ب د اور شہروں میں سڑکیں غائب ہوگئی ہیں۔ اب ا کی بحالی پر توجہ دی جائے اور حکومت ا تباہی کے ذمہ دارا کو بے قاب کرے۔ ور ہ ہر بارش کے بعد یہی م ظر امہ سام ے آتا رہے گا۔ لوگ سسی کی بےخبری کو روتے رہیں گے۔
پیرس اولمپک میرج بیورو میں تبدیل۔
 پیرس اولمپکس میں جہاں کھیلوں کے ئے ئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ ا میں سے ایک م فرد اعزاز ایسا بھی ہے جس کا براہ راست کھیل سے تو کوئی تعلق ہیں مگر کھیل سے وابستہ افراد یع ی کھلاڑی اس اعزاز کو قائم کر ے میں شامل ہیں۔ن
پیرس اولمپکس میں جت ے کھلاڑیوں ے خود کو رشتہ ازدواج میں با دھا وہ بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل اولمپکس میں ات ے کھلاڑیوں کی طرف سے شادیوں کے پروپوزلز کا کوئی ریکارڈ سام ے ہیں آیا۔ گزشتہ روز بھی ایک امریکی کھلاڑی ے اپ ی ساتھی کھلاڑی کو مقابلے کے اختتام پر روایتی ا داز میں گھٹ وں کے بل جھک کر شادی کی پیشکش کی اور ا ہیں ا گوٹھی پہ ائی۔ اس موقع پر کھلاڑی ے ایسے جذباتی روما ٹک جملے کہے کہ ساتھی کھلاڑی کی آ کھیں خوشی سے جھلک پڑیں۔ اسی صورتحال میں اقدی اسے اولمپکس گیمز کی بجائے میرج بیورو کی خدمات کا ام دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی برائی بھی تو ہیں بلکہ یہ کم خرچ بالا شی والی بات ہے۔ سیدھا سادہ اظہار محبت اور سادہ تقریب ایک عدد ا گوٹھی پہ ا کر چرچ میں ایجاب و قبول کے بعد دعوت۔ ہ مہ دی کا خرچہ، ہ بارات کا ہ جہیز کا جھ جھٹ ، ہ سی کڑوں لوگوں کو لا کر گھر والوں کو قرضے کے بوجھ تلے دبا ے کا مسئلہ۔ شادی تو ہمارے مذہب میں بھی اہم فریضہ ہے مگر بہت سی غیر ضروری رسومات کو اس میں شامل کر کے ہم ے اخراجات کے جو پہاڑ کھڑے کر دئیے ہیں اس کو سر کرتے کرتے کئی لڑکوں اور لڑکیوں کے سروں میں چا د ی چمک ے لگتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی والدی جا کر ایک ایک ا گوٹھی پہ ا کر شادی کی رسم ادا کریں کاح کے بعد صرف سادہ ولیمہ ہو۔ جہیز یا مہ دی اور بارات سے اجت اب کیا جائے تو ہمارے ہاں بھی شادی آسا ہو سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن