وزیر خارجہ اور ڈپٹی وزیراعظم پاکستان اسحاق ڈار نے جدہ میں او آئی سی کے سیکرٹری جنرل‘ الجزائر کے ہم منصب سے ملاقاتیں کیں. مزید برآں او آئی سی وزرائے خارجہ ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کی جنگ پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
اسرائیل غزہ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ امت مسلمہ کو او آئی سی سے بہت ساری توقعات ہیں۔ اسرائیل کو اس کے مظالم کا جوابدہ بنانا ہو گا۔اسرائیل فلسطین جنگ مشرق وسطیٰ تک تو پھیل چکی ہے۔اب یہ دنیا کو لپیٹ میں لیتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اسرائیل کی طرف سے لبنان یمن شام اور ایران میں حملے کیے گئے ہیں۔یہ جنگ عالمی امن کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی متفقہ طور پر قرارداد منظور ہو چکی ہے اسرائیل اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اسرائیل جنگ کو پھیلاتا چلا جا رہا ہے۔حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل پر جلد حملہ ہونے والا ہے۔چھوٹے موٹے حملوں سے اسرائیل کا کچھ بگڑتا ہوا نظر نہیں آرہا۔اسے سبق سکھانے کے لیے مسلم ممالک کو متحد ہونا ہوگا۔امہ کے اتحاد کی تو صورتحال یہ ہے کہ ایران کی طرف سے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا گیا تو اردن نے کئی میزائل اپنی سرحد میں گرا لئے۔مصر کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنی حدود اسرائیل پر حملے کے لیے استعمال نہیں کرنے دے گا۔ایک عرب لیگ بھی ہوا کرتی ہے۔او ائی سی 57 مسلم ممالک کی بڑی تنظیم ہے۔عرب لیگ میں 23 ممالک شامل ہیں۔ اسرائیل فلسطین جنگ میں فلسطین کا ساتھ دیتا ان دونوں کا کوئی کردار نظر نہیں آیا۔مذمتی قراردادیں منظور کی جاتی ہیں اور خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔اب صورتحال بیانات اور مذمتی قراردادوں سے کہیں آگے جا چکی ہے۔ آج عملیت پسندی کی ضرورت ہے بلکہ ناگزیر ہو چکی ہے۔اسرائیل کو جنگ بندی کیلئے سخت وارننگ دی جائے۔ اگر وہ بدستور جارحیت جاری رکھتا ہے تو پھر اس کو اس کا جواب اسی کی زبان میں دینے کی ضرورت ہے جو 57 ممالک متحد ہو کر بخوبی دے سکتے ہیں۔