جنرل عاصم منیر کا کامیاب اکنامک وِژن

ابھی دو سال پہلے کی بات ہے جب پاکستان آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے اکنامک ویڑن کو ان کے اپنے خیرخواہ لوگ بھی ” ابھی دیکھتے ہیں “ کے موڈ میں رکھے ہوئے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اتنے بڑے کرائسس میں زراعت اور معدنیات کے شعبے فوری طور پر کیا معجزہ برپا کر سکتے ہیں۔ حالانکہ اس میں ایس آئی ایف سی کا قیام فوری اور طویل المدتی منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے وہ قدم تھا جس کی پاکستان کو ہمیشہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ضرورت رہی ہے کیونکہ یہاں ہمیشہ ایڈہاک ازم اور ریاست پر حکومت کے فائدے کو ترجیح دینے کے مائنڈ سیٹ نے کبھی لانگ ٹرم کے لیے نہ کچھ سوچا اور نہ کیا۔ پاکستان میں ویسے بھی فوری نوعیت کی حکمت ِ عملی تو آئی ایم ایف کے سامنے گِٹے جوڑ کر ہاتھ باندھنے اور ناک رگڑنے کے سوا سوچ بھی لی جائے اور ممکن بھی بنا لی جائے پھر بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسے عملی جامہ بھی پہنانے دیا جائے ۔سو پاکستانی معیشت کو بچانے کا ویژن اس کے علاوہ ممکن ہی نہیں تھا جو جنرل عاصم منیر نے دیا اور اس پر تیزی سے کام بھی شروع ہوگیا۔
اس ضمن میں دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ اب صاحب بصیرت پاکستانی اپنی مدد آپ کے تحت جنرل عاصم منیر کی طرف سے دیے گئے زرعی روڈمیپ پر چلنا شروع ہوچکے ہیں۔ 
ایگری ٹوورازم کارپوریشن جو سوفیصد ایک رضاکارانہ تنظیم ہے ، زرعی سیاحت کے فروغ سے پاکستانی زراعت ، کسان اور اینڈ یوزر کی حفاظت ، ترقی اور بھلائی کے لیے میدان میں آ کھڑی ہوئی ہے۔ ایگری ٹوورازم کے سی ای او طارق تنویر سے میری ملاقات میری معالج، انٹیگریٹڈ میڈیسن اپروچ کی ماہر ڈاکٹر صائمہ عظیمی کی وساطت سے ہوئی۔ ڈاکٹر صائمہ عظیمی خیر کی آرزو رکھنے والی ایسی درویش منش ہستی ہیں جن کی زندگی کا مشن ہے لوگوں کو فطرت کے قریب ترین زندگی گزارنے کے ڈھنگ کی طرف لانا اور بڑی سے بڑی بیماری کا علاج قدرتی اور فطرتی طریقہ ہائے علاج سے کرنا۔ طب کی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انکے علاج میں شفاءرکھی ہے اور انکے کریڈٹ پر ذیابیطس سے لیکر کمر اور جوڑوں کے مسائل ، جلدی بیماریوں اور جگر معدہ کے ان گنت اور بہت شدید کیسز کا کامیاب علاج موجود ۔ ان کے ذریعے ہی مجھے آم سے لیکر کھجور تک فروٹس میں پائی جانے والی شوگر کا ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بےضرر بلکہ شفاءبخش ہونے کا پتہ چلا۔ 
پچھلے دنوں لاہور میں ہونے والے مینگو فیسٹیول میں مَیں ڈاکٹر صائمہ عظیی کی دعوت پر شامل ہوا تو وہاں طارق تنویر کے ذریعے الیاس درانی جیسے جدی پشتی آم فارمر سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے مجھے اپنے والد کی لکھی ہوئی آموں پر تحقیق کی کتاب ، ” صلائے آم ہے “ عطاءکی جو کم از کم اردو زبان میں اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے۔ فیسٹیول میں مجھے اسکے علاوہ کولہو سے لیکر مچھلی فارم تک اور آموں کی ڈیڑھ سو قسموں سے لیکر ویلیو ایڈڈ آرگینک پراڈکٹس تک دیکھنے ، کھانے اور خرید کر گھر لانے کا موقع ملا۔ دوسری خوشی مجھے وہاں ڈسکور پاکستان ٹی وی چینل کے سی ای او ڈاکٹر قیصر رفیق کی متحرک موجودگی سے ہوئی۔ ڈسکور پاکستان چینل پاکستان کا واحد چینل ہے جس پر کبھی کوئی بری یا ذہنی طور پر دباﺅ میں لانے والی خبر نہیں چلائی جاتی۔ پاکستان کی سیاحت سے لیکر زراعت تک اور معدنیات سے لیکر ثقافت تک ایسے ایسے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر وطن پر ایمان مضبوط یوتا ہے۔ 
طارق تنویر نے بتایا کہ پاکستان کی زرعی ترقی کے آرزو مند دوستوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم تمام لوگ اپنے شعبوں میں ماہر اور کامیاب لوگ ہیں۔ ایگری ٹوور ازم کے فروغ سے جہاں ہم دیہات کو شہروں سے منسلک کر رہے ہیں وہاں کچھ نہ کر کے اور صرف ایکسپلائٹیشن سے کسان کا حق مارنے والے اور عوام کی جیب کاٹنے والے غیر پیداواری مڈل مین کو نکال باہر کر رہے ہیں تاکہ کسان اور اینڈ یوزر کا نقصان ہونے سے بچایا جائے۔ طارق تنویر نے بتایا کہ ہمارا مقصد پاکستان کے کسان کو جدید ترین زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال کا شعور دے کر ایک طرف غیر ضروری امپورٹ پر اٹھنے والا زر مبادلہ بچانا ہے تو دوسری طرف ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ہے ۔ 
 انہوں نے بتایا کہ ایگری ٹورازم ون ویلج ون پراڈکٹ کے تھیم پر ملک بھر میں اب تک 19 گاو¿ں بسا چکا ہے۔ مجھے یاد ہے آج سے بیس سال پہلے سمال میڈیم انٹرپرائز ڈپارٹمینٹ نے اس پر کام شروع کیا تھا اور سِلاں والی میں پہلا ماڈل ویلج قائم کیا گیا تھا اور فرض فاو¿نڈیشن نے ایس ایم ای ویلج کا کانسیپٹ دیا جسے دنیا بھر کے فنانشل اداروں نے بہت سراہا۔ آج اس خواب کی تعبیر طارق تنویر اور انکے دوستوں کے ہاتھوں سچی ثابت ہوتی دیکھ کے مجھے ذاتی طور پر بھی بے انتہا خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ ایسا ایک گاو¿ں پورے شہر کی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرکے کاروبار کے فروغ ، امپورٹ ایکسپورٹ کی ترقی اور ہزاروں لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ 
طارق تنویر نے بتایا کہ پہلے ہم گرتے پڑتے آہستہ آہستہ کام کرنے میں لگے ہوئے تھے لیکن جب سے پاکستان آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب نے زراعت بارے اپنی حکمت عملی کا آغاز کیا ہے ہمارے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔ اسی طرح الیاس درانی نے بتایا کہ ہمارا قدیمی مینگو فارم جس میں دو سو سے زائد قسموں کے آموں کی فصل ہوتی ہے ملتان ڈی ایچ کے درمیان میں آتا ہے جس کی وجہ سے کئی پراپرٹی ڈیلر ہم پر دباﺅ ڈال رہے تھے کہ فارم بیچ دیں تاکہ ہم یہاں سے پاکستانی زراعت کا یہ معجزہ، حسن اور معیشت کا مثالی نمونہ کاٹ کے یہاں بلڈنگیں بنا کے مال کمائیں لیکن اب ریاست کی طرف سے زراعت کو وقعت اور عزت ملنے کی وجہ سے پچھلے دوسال سے چپ سادھ کے بیٹھ گئے ہیں۔ 
 طارق تنویر نے اپنے ایک اور خواب کے بارے میں بتایا کہ اگر پاکستان کی زرعی یونیورسٹیوں میں ایگری ٹورازم کے مضمون پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ڈگری پروگرام شروع ہوجائیں تو اس سے ایک تو فارغ التحصیل طالب علموں کے لیے روزگار کے بہت سے مواقع میسر آئیں گے ، دوسرا ایگری ٹور ازم انڈسٹری کو پروفیشنل اور سکلڈ ہیومن ریسورس ملنے سے انڈسٹری کی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوگا۔ طارق تنویر نے یہ بھی بتایا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں سیاستدانوں سے زیادہ SIFC سے امید ہے کہ اس معاملے میں زرعی یونیورسٹیوں کی مشاورت سے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکالا جائیگا۔میرے لیے خوشی کی بات یہ تھی پاکستان کے موجودہ حالات میں اتنے مثبت اور لائق لوگوں کا مصروف عمل ہونا اس بات کی نشاندہی ہے کہ پاکستان سلامت تا قیامت رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن