محمدحمید شاہد ادبی دنیا کا نامور نام ہے، اردو افسانے کے حوالے سے عصرحاضر میں محمدحمید شاہد کے مقام اور انکے افسانے کے معیار سے انکار نہیں کیاجاسکتا، ان کی افسانہ نگاری کا سفر”بند آنکھوں سے پرے“ انکے پہلے افسانوی مجموعے سے شروع ہوا،اس کے بعد” جنم جنم“” مرغزار“” آدمی“، ”سانس لینے سے درد“ ہوتاہے یہ انکے پانچ افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے اس کے ساتھ ساتھ ان کا قلم تخلیق کے میدان سے تنقید کے میدان کی طرف بھی کارہائے نمایاں انجام دیتا رہاہے۔ ان کاایک ناول ”مٹی آدم کھاتی ہے“ مقبول ہوا، ان کے افسانوں کے متراجم اور انتخاب بھی شائع ہوچکے ہیں، تنقیدی کتب میں ادبی تنازعات ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، اردو افسانہ” صوت ومعنی“ یہ فکشن کی تنقید ہے ”کہانی اوریوسا سے معاملہ“ یہ ڈاکٹر عمرمیمن کے ساتھ کہانی کے بارے میں ان کے مکالمات جو کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں اس کے علاوہ اردو نظم میںبھی ان کی تنقید راشد، میرا جی اور فیض کے فن، نظم پہ اورانکی شاعری پہ ”نایاب ہیں ہم “ کے نام سے شائع ہوئی۔کتابی صورت میں اردو فکشن” نئے مباحث“ یہ بھی تنقیدی کتاب ہے اس کے علاوہ ان کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نیا افسانہ اور نئے لکھنے والوں کیلئے رہنما کتاب لکھی” افسانہ کیسے لکھیں“۔ میرے پاس جوان کی کتاب ہے ” جستجوگفتگو“ دراصل مختلف حوالوں سے لوگوں نے انکے جو انٹرویوز کئے یہ ان کو یکجا کرکے انکی تدوین کی ہے۔ اس کا سہرا محمدظہیر بدرکے سر بندھتاہے۔ اس میں جو گفتگوہوئی میرے خیال وہ اردو افسانہ اور ناول کی تخلیقی عمل سے گزرتی ہے۔ اسکے بھید کیا ہیں اوراسکے امکانات کیاہیں، یہ” جستجو گفتگو“میں حمید شاہد نے مختلف سوالات کے جوابات کے ذریعے قارئین تک پہنچائے ہیں۔ گوکہ انٹرویو کی صورت عمومی ہوگئی ہے۔ لوگ عام طور پہ اپنی کتاب چھپوانے کے شوق میں لوگوں کے انٹرویوز کرکے مرتب کرتے ہے۔ لیکن ان انٹرویوز کا طرہ امتیازیہ ہے کہ یہ انٹرویوز مختلف انداز میں لئے گئے ہیں۔جیسے ڈاکٹر طاہرمسعود نے انٹرویوز شائع کئے،” صورت گرکچھ خوابوں کے“ چنانچہ میرے خیال میں وہ کتاب ادبی شخصیات کے انٹرویوز کی پہلی کتاب ہے اور یہ دوسری کتاب ہے۔اسکے تدوین کار محمد ظہیر بدر نے جب انہوں نے انٹرویوزاکٹھے کئے تو اس پر خاص محنت کرتے ہوئے سوالات کی تکرار ختم کرکے اس کو قارئین کیلئے زیادہ دلچسپی کا باعث بنادیا۔ اس کتاب کا آغاز بہت خوبصورت ہے کہ ” کلام کرو تاکہ پہچانے جاﺅ“ محمدظہیربدر نے حمید شاہد کے مکمل حالات زندگی آغاز وارتقائے حیات وفن کے بارے میں طویل شجرہ تج کیاہے۔ جو شامل کتاب ہے اس میں قاری کو ایک طرح سے فنکار اور ارتقائی سفر کا کتاب کے شروع میں ہی پتہ چل جاتاہے۔ محمدحمید شاہد جستجو گفتگو میں لکھتے ہیں کہ زندگی خود اتنا بڑا موضوع ہے کہ جس پر لکھنے والے لکھتے چلے آرہے ہیں مگر تشنگی باقی رہتی ہے، اس تشنگی کی بقاءہمارے تخلیقی مزاج کی بقاہے جس روز زندگی پر لکھنے کو کچھ نہ بچا، جانیے وہی دن ہماری تخلیق صلاحیتوں، بلکہ مجھے کہنا چاہیے کہ ہماری زندگی کا آخری دن ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ زندگی اسی تخلیقی جوہر اور اس باب کی بے پناہ تشنگی سے جڑی ہوئی ہے۔ایک تخلیق کار تخلیقی عمل سے جڑے ہونے کے باعث تنقیدی سوالات کے مقابل ہوتے ہوئے اس جانب بھی متوجہ کرلیا جاتا ہے جو بالعموم ناقدین کے ہاں کچھ زیادہ اہم نہیں ہوتے، فکشن کی تنقید کا زیادہ سرمایہ ہمارے موضوعات اور اسکے باب کے مباحث پر مشتمل ہونے کا سبب بھی یہی ہے کہ تخلیقی عمل کے بھید سمجھنے اور اپنے قاری کو سمجھانے کی اہمیت کو اس شدت سے محسوس نہیں کیاگیا جس شدت سے اس کا واسطہ ایک تخلیق کار کو اس سے پڑتاہے، میں تنقید کی طرف تخلیقی عمل کو سمجھنے اور مختلف حالات کے اندر، یا پھر مختلف مزاج رکھنے والے تخلیق کاروں کے ہاںیہ کیسے کام کرتاہے اسے سمجھنے کیلئے تنقید کی طرف آیا تھا یہ ایسا بھید بھرا علاقہ ہے کہ جوں جوں آگے جاتاہوں ایک استقبالیہ قالین کی طرح میرے سامنے کھلتا چلا جاتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی اندوہناک خبر، یہ وہ لمحہ تھا جو ان کی زندگی میں ٹھہرگیا، وہ کہتے ہیں اور میں سنتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتا ہوں، کلیجہ کٹ جاتاہے، پورے پاکستان کے کروڑوں پاکستانیوں کی طرح میرا اور محمدحمید شاہد کایہ دکھ سانجھاہے، آپ بھی انہی کی زبانی سنیں اور وہ آنسو بہالیں شاید یہ آنسو قومی یکجہتی کا محرک بن جائیں۔میرا بچپن مجھ سے چھین لیا، کیسے وہ بچن جسے میں خواب کہتا تھا وہ ٹوٹ گیا اور یہ تب کا واقعہ ہے جب میں محض چودہ برس کا تھا، وہ رات جب ہم نے سقوط ڈھاکہ کی خبر سنی تھی اور رات بھر ابا کویوں تڑپتے دیکھا تھا جیسے کسی ذبیحہ کی گردن آدھی کاٹ کر اسے تڑپنے کیلئے پھینک دیاگیاہو، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں وہ رات تھی جب میں اندر کی تانگ پر کچھ لکھنے کی طرف راغب ہوا تھا، اکہتر کی جنگ میںشکست کی خبر، پاکستان ٹوٹنے کی خبر، مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی خبر ایسی تھی کہ ابا بھی ہوش کھو بیٹھے تھے۔شاید یہی روز تھا کہ ابا کے دماغ کی کوئی رگ رسنے لگی تھی، بعد کے برسوں میںان پر فالج کا حملہ ہوا،1983ءکو جب میںیونیورسٹی سے فارغ ہوکر آیا تو وہ بول بھی نہ سکتے تھے پہلو بدلنے کیلئے بھی ہمارے سہارے کے محتاج تھے، مجھے یاد ہے کہ میری پہلی کتاب پیکر جمیل آئی میں بے دھیانی میں خوشی خوشی ابا کے پاس لے گیا اور کھول کر انکے سامنے کردی، وہ مسلسل کتاب پر نظریں جمائے رہے، انکے ہونٹ پھڑ پھڑائے ،مگر ایک لفظ بھی ادا نہ کرسکے، پتہ نہیں وہ کیا کہنا چاہتے تھے انکی آنکھیں آنسوﺅں سے بھرگئیں، میں نے اپنا سر ان کی چھاتی پہ رکھ دیا اور جی بھر کر رودیا تھا۔