مضبوط و مستحکم پاکستان اور پاک فوج !

ملک دشمن عناصر کے پاس پاکستان کی سلامتی پر وار کرنے کیلئے ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ وہ کسی طرح پاکستان کے عوام کو پاک فوج کے مدمقابل لاکھڑا کریں۔دشمنوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں دہشت گردی کا طوفان برپاکر کے بھی دیکھ لیا۔اس میں بھی وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔انہیں یقین تھا کہ جس موثر اور مضبوط منصوبہ بندی سے وہ دہشت گردوں کو پاکستان میں استعمال کرنے جارہے ہیں۔ پاک فوج کیلئے اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا۔کیونکہ دہشت گرد پاکستان میں عوام کے اندر سے بغیر ہدف کا اعلان کیے اور وقت بتائے خود کش بمباروں کی صورت میں حملہ آور ہونگے۔ دہشت گردی کے پے درپے واقعات کے پیش نظر عوام میں بدگمانیاں پیداکرنے کی کوششیں کی گئیں کہ پاک فوج ان کے تحفظ کا فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس حوالے سے مخصوص قوم پرستی پرمبنی خیالات رکھنے والے دانشوروں کے ذریعے اخبارات میں تحریریں لکھوائی گئیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر تبصروں کی صورت پروپیگنڈہ کیاگیا۔لیکن پاک فوج نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر نہ صرف دہشت گردوں کا مقابلہ کیا بلکہ انہیں پاکستان سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا جو بالآخر اپنے مرکز افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔اور اب یہ دہشت گرد عناصر افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی اورسوشل میڈیا کے ذریعے تخریب کاریوں میں مصروف ہیں جبکہ پاک فوج ہرجگہ ان دہشت گردوں کا پیچھا کر کے انہیں کیفرکردار کو پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
دشمنوں کا سارا دارو مدار اس وقت سوشل میڈیا پر ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان کے عوام کو پاک فوج کے خلاف ورغلانے میں مصروف ہیں۔ان کی امیدیں اب پاک فوج سے متعلق لوگوں میں ابہام پید ا کر کے ان میں عدم تحفظ کے جذبات ابھارنے سے وابستہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج کے جدید دور کی مواصلاتی ٹیکنالوجی کو بھونڈے انداز سے پروپیگنڈہ کے طورپر پاک فوج کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اخلاقیات کی پامالی میں ذرہ بھی شرم محسوس نہیں کرتے جس کی کسی دوسرے ملک میں نظیر نہیں ملتی۔ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ ملک دشمنوں کا خصوصی ہدف ہے۔ 
بلوچستان میں ایک طرف حقوق کے نام پر وہاں کے معصوم عوام کی محرومیوں کو استعمال کیاجارہا ہے جس کا بنیادی سبب وہاں کا سرداری نظام اور اس سے جڑی ہوئی صدیوں پرانی روایات ہیں۔ ان فرسودہ روایات کے تحت کسی بھی قبیلے سے تعلق رکھنے والا عام بلوچ اپنے سردار کی مرضی کے بغیر پیروں میں جوتی تک نہیں پہن سکتا۔ سراٹھاکر سردار کی طرف دیکھ نہیں سکتا۔ بلوچ عوام کو صدیوں پہلے بتادیا گیا تھاکہ ترقی ،مراعات اور خوشحالی پر صرف سرداروں اور ان کی آل اولاد کا حق ہے، اس طرح کے حقوق کے بارے میں سوچنا یا اس کی خواہش کرنا سردار کی برابری کرنے کے ناقابل معافی جرم کے مترادف ہے جس کی عبرت ناک سزا کا خوف بلوچ عوام سے سوچنے کا حق بھی چھین لیتا ہے۔
 ان تمام محرومیوں کا ذمہ دار ملک دشمن عناصر پاک فوج کو قرار دے کر وہ معصوم بلوچوں کے ذہنوں کو خراب کرنے میں مصروف ہیں۔ بیرونی دشمنوں کے آلہ کار بن کر بعض بلوچ سردار بلوچستان کی آزادی کے خواب دکھاکر چند ٹکوں کے عیوض بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں پہلے تو بندوق تھماتے ہیں اور پھر انہیں پاک فوج اور فوجی تنصیبات پر حملوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان دشمن قوتوں کی خواہش پر ان حملوں میں اب بلوچستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور ان کے ورکروں کو بھی ہدف بنایاجانے لگا ہے۔ بلوچ سردار بخوبی سمجھتے ہیں کہ سی پیک منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو اسکے ثمرات بلوچستان میں بلوچ عوام تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ معاشی آسودگی ملتے ہی بلوچ نوجوان اپنے حقوق کا ادراک کرتے ہوئے بلوچ سردار ی روایات سے بغاوت کا مرتکب ہوگا۔ملک دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلنے والے بعض بلوچ سردار بلوچستان کے عوام تک حقوق کا شعور پہنچنے سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ وہ اب بلوچ حقوق کے نام پربرپا کی جانے والے نام نہاد تحریکوں کی قیادت کیلئے خواتین کو آگے لارہے ہیں جنہیں لاپتہ افراد کا بیانیہ دے کر ریلیوں کیلئے میدان میں اتارا گیا ہے۔ ان ریلیوں میں بھی اب معصوم بچیوں اور خواتین کو استعمال کیاجارہا ہے۔ 29جولائی 2024ءکو اسی طرح کی ریلیوں میں خواتین کے تحفظ کے نام پر شامل مردوں نے گوادر میں سیکورٹی پر مامور پاک فوج کے جوانوں پر حملہ کردیا،ان میں کچھ مسلح افراد بھی موجود تھے۔ اس حملے میں ایک جوان شہید اور افسر سمیت 16جوان زخمی ہوگئے۔ اس شرانگیزی پر بھی پاک فوج نے جس طرح تحمل کا مظاہرہ کیا وہ قابل تحسین ہے ورنہ بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوسکتا تھا۔یوں پاک فوج نے ملک دشمن عناصرکیلئے سویلینز کی لاشیں اٹھاکر احتجاج کرنے کیلئے بنائے گئے منصوبے کو بری طرح ناکام کردیا۔
گذشتہ کچھ برسوں لاپتہ افراد کا مسئلہ جس انداز سے بلوچستان میں بار بار اٹھایا جارہا ہے اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ نام نہاد بلوچ علیحدگی پسند آج تک لاپتہ افراد کی مستند تفصیل سامنے نہیں لاسکے۔ گزرے برسوں میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات ایسے بھی ہیں جن میں مارے گئے دہشت گردوں کا نام بلوچ کالعدم دہشت گرد تنظیموں نے پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کیلئے استعمال کیا۔ ان فہرستوں میں ایسے افراد بھی شامل تھے جو سرحد پار افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ افراد جب پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائی کے دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جاتے اور ان کی تصاویر میڈیا کی زینت بنتیں توپھر لاپتہ افراد کا واویلا کچھ عرصہ کیلئے دب جاتا لیکن چند دن یا ہفتے بھر کی خاموشی کے بعد پھر سے لاپتہ افراد کا پروپیگنڈہ شروع ہوجاتا۔ان تمام حقائق سے آگاہی کے باوجود 2 اگست 2024ءکو وفاقی کابینہ نے انتہائی اہم قدم اٹھاتے ہوئے اور لاپتہ افراد کے مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے ان کے اہل خانہ کیلئے بھاری گرانٹ کی منظوری دے کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال ہونے والے لاپتہ افراد کے پروپیگنڈہ ہتھیار کو نہ صرف ناکارہ کردیا ہے بلکہ اپنے اس اقدام سے ثابت کیا ہے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے وہ پانچ برسوں سے لاپتہ افراد کے ہر خاندان کو 50لاکھ روپے گرانٹ دے گی جوکہ بہت بڑی رقم ہے اور ابھی اس پر پاکستان مخالف بلوچ سرداروں کا ردعمل آنا باقی ہے جو چند ہزار دے کر معصوم بلوچ نوجوانوں سے اپنے صوبے میں لوگوں کو قتل کراتے رہے ہیں۔ حالانکہ ریاست یا پاک فوج بلوچستان میں افراد کی گمشدگی کی ذمہ دار نہیں اوراقوام متحدہ بھی اپنی رپورٹس میں بتاچکا ہے کہ بلوچستان سے ہزاروں نوجوان کالعدم دہشت گردتنظیموں کا حصہ بن کر افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں جہاں انہیں پاکستان میں دہشت گردی کیلئے اسلحہ اور تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ تو کیا بلوچ دہشت گرد تنظیمیں اپنے ان ساتھی بلوچ دہشت گردوں کی تفصیلات سامنے لائیں گی جنہیں لاپتہ ظاہر کرتے ہوئے ملک میں پروپیگنڈے کا بازار گرم کیا جاتا ہے ؟ ہرگز نہیں ،تاہم حکومت نے بھاری گرانٹ کا اعلان کرکے اس امر کا اظہار ضرور کردیا ہے کہ پاکستان میں ہر شہری کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے اندر پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے اور کیلئے سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال بند کیا جائے اور اس حقیقت کو تسلیم کیاجائے کہ پاک فوج کے دم سے ہی پاکستان مضبوط بھی ہے اور مستحکم اور محفوظ بھی۔

ای پیپر دی نیشن