بنگلہ دیش میں عوامی انقلاب کے بعد نوبل امن ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر محمد یوسف کی سربراہی میں عبوری حکومت تشکیل دے دی گئی ہے۔ وہ گزشتہ روز پیرس سے ڈھاکہ پہنچے اور عبوری سربراہ کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے خطاب میں عبوری حکومت کی پالیسیوں کو اجاگر کیا جن میں بالخصوص بھارت کے ساتھ تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ پراگندگی کا شکار بنگالیوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے اور اپنی خارجہ پالیسی کا بھی ازسرنو جائزہ لے۔ انکے بقول بھارت کے بنگلہ دیش کے غلط لوگوں کے ساتھ مراسم ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی مستعفی وزیراعظم حسینہ واجد کو ملک سے نکلنے کیلئے محفوظ راستہ دینے کو حماقت قرار دیا اور اس امر پر زور دیا کہ بنگلہ دیش میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونی چاہیے کیونکہ تشدد برقرار رہنے سے ساری محنت ضائع ہو جائیگی۔
اسی طرح بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاءنے ساڑھے چھ سال بعد جیل سے رہائی کے بعد ویڈیو لنک کے ذریعے قوم سے خطاب کیا اور حسینہ واجد کے دور کو ظلم اور جبر کا دور قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں سب کو معاف کرتی ہوں اور کسی سے انتقام نہیں لوں گی۔ انکے بقول ملک کو اب آگے چلنے دینا چاہیے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے خطاب میں اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تاہم انکے قریبی ذرائع کے حوالے سے میڈیا پر آنیوالی رپورٹس سے یہ عندیہ مل رہا ہے کہ وہ اپنی علالت کے باعث اب عملی سیاست میں حصہ نہیں لیں گی اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کریں گی۔ انکے صاحبزادے ابھی تک جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں تاہم بہت جلد ملک واپس آجائیں گے۔
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کیخلاف تحریک کا آغاز اگرچہ تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کے تحت داخلہ پالیسی میں کی گئی ترمیم سے ہوا تھا اور بنگلہ دیش کے طلبہ نے ہی اس تحریک کا اجراءاور قیادت کی اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا تاہم حسینہ واجد کے مستعفی اور بھارت فرار ہونے اور پھر بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزمان کی جانب سے ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کے بعد بنگلہ دیش کے طلبہ کے علاوہ عوام الناس کی جانب سے بھی حسینہ واجد کی حکومت اور شیخ مجیب الرحمان کے خاندان کے ساتھ جس نفرت کا اظہار پبلک مقامات پر نصب شخ مجیب کے مجسموں کی توڑ پھوڑ‘ حسینہ واجد کے گھر میں لوٹ مار‘ مجیب فیملی کے دیگر لوگوں کے گھروں پر حملوں اور انکے قتل اور بالخصوص بھارت کے ساتھ مجیب فیملی کے ساتھ تعلقات کے ناطے نفرت کے اظہار کی صورت میں سامنے آیا، اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام کے دلوں میں یہ نفرت حسینہ واجد کی حکومت کی پالیسیوں سے زیادہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کے پیدا کردہ ان حالات کے پس منظر میں پیدا ہوئی تھی جو 1971ءمیں مکتی باہنی کے ذریعے بھارت کی جانب سے پاکستان کو سقوط ڈھاکہ کی شکل میں دولخت کرنے پر منتج ہوئے۔
شیخ مجیب الرحمان اگرچہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا کر خود کو ”بنگوبندھو“ کہلوانے لگے مگر بنگالیوں کے دلوں میں پاکستان کو بھارت کی معاونت سے دولخت کرنے اور پھر بنگلہ دیش کو بھارت کی جھولی میں ڈالنے کی انکی پالیسی نے جس نفرت کو جگہ دی اور پروان چڑھایا، وہی نفرت بالآخر حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئی اور بنگلہ دیش کے عوام نے شیخ مجیب الرحمان اور انکی بیٹی حسینہ واجد سے انکی بھارت نواز پالیسیوں کا انتقام لیتے ہوئے اس پورے خاندان کو نشان عبرت بنادیا جو کسی وطن کے غداروں کے انجام کی منہ بولتی تصویر ہے۔ ورنہ تو شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت کے تسلسل میں بنگلہ دیش نے مثالی ترقی کی جس کی معیشت اور کرنسی خطے کے دوسرے ممالک کے مقابل زیادہ مستحکم ہوئی اور ہر شعبے میں ترقی کے زینے چڑھتے ہوئے بنگلہ دیش ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نظر آنے لگا تھا جس کی سرعت کے ساتھ ترقی کی دنیا میں مثالیں دی جا رہی تھیں۔
اگر بنگلہ دیش کے عوام کے دلوں میں بھارتی معاونت کے ساتھ برپا ہونیوالے سانحہ سقوط ڈھاکہ کی کسک موجود نہ ہوتی تو انہیں کیا پڑی تھی کہ وہ بنگلہ دیش کی اس حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے اس کیخلاف صف آراءہوجاتے جس نے اس ملک کی صنعت و معیشت کو ترقی کے پہیئے لگا کر اقوام عالم میں اس کا سر بلند کرنے کی کوشش کی۔ شیخ حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہونے کے بعد انکے بیٹے نے بھی اسی تناظر میں اپنی والدہ کی حکومت کیخلاف بغاوت کی صورت اختیار کرتے اور انقلاب برپا کرتے عوامی جذبات پر تاسف کا اظہار کیا کہ انہوں نے ملک کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے والی انکی والدہ کی قدر نہیں کی۔ اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کسی ملک کے عوام کی جس نظریے کے ساتھ وابستگی ہوتی ہے اسے مٹایا نہیں جا سکتا اور جو حکمران ایسی غلطی کرتے ہیں‘ وہ ایک لمحے کی غلطی ان کیلئے صدیوں کی سزا بن جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں برپا ہونیوالے حالیہ عوامی انقلاب نے یہی ثابت کیا ہے کہ عوام کو انکے نظریات سے ہٹانے کا ظلم و جبر کا کوئی ہتھکنڈہ کامیاب نہیں ہو سکتا اور انکے دلوں میں پنپنے والی نفرت موقع ملتے ہی لاوا بن کر پھٹ پڑتی ہے۔
اگر بنگلہ دیش کے عوامی انقلاب کا پس منظر کچھ اور ہوتا تو بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کو اپنے پہلے ہی خطاب میں بنگلہ دیش کی بھارت نواز پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے اور بھارت کو بنگلہ دیش کے غلط نظریات والے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا مشورہ دینے کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ چنانچہ بنگلہ دیش کا عوامی انقلاب تاریخ کے ریکارڈ پر اس حقیقت کو واضح طور پر اجاگر کرنے کیلئے برپا برپا ہوا ہے کہ دو قومی نظریئے کو سبوتاژ کر کے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنا، اسے بنگلہ دیش میں تبدیل کرنا اور بھارت کا کٹھ پتلی بنانا شیخ مجیب الرحمان کا غلط اقدام تھا۔ بنگلہ دیش کے یہی غلط سوچ والے لوگ آج بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ کی تنقید کی سب سے پہلے زد میں آئے ہیں۔
اس تناظر میں جو لوگ پاکستان کے موجودہ حالات کا بنگلہ دیش کے عوامی انقلاب کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں وہ محض سیاست ہے۔ آج پاکستان کے جو حالات عوامی انقلاب کے متقاصی ہیں‘ وہ حکمرانوں کے پیدا کردہ روٹی روزگار‘ غربت‘ مہنگائی اور عدم تحفظ و لاقانونیت سے متعلق ہیں۔ ایسے حالات بنگلہ دیش میں ہرگز موجود نہیں تھے۔ ہمارے حکمرانوں کیلئے عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے گھمبیر مسائل اس لئے بھی لمحہ فکریہ ہونے چاہئیں کہ ان مسائل نے عوام کیلئے آبرومندی کے ساتھ زندہ رہنا بھی مشکل بنا دیا ہے جس میں خودکشی اور اپنے پیاروں کی اپنے ہی ہاتھوں جان لینے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے اور اپنے مالی حالات سے عاجز آئے لوگ عملاً لوٹ مار کے راستے پر بھی چل نکلے ہیں جبکہ حکمران اشرافیہ مراعات یافتہ طبقات کے اللے تللے اور نجی و سرکاری پاور کمپنیوں کی کیپسٹی چارجز کے نام پر قومی خزانے میں اعلانیہ ڈکیتی کو دیکھ کر عوام کا اضطراب مزید بڑھ رہا ہے جو جماعت اسلامی کی دھرنا تحریک کو بڑھاوا دینے کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے حالات کی بنیاد پر ابھرنے والا کوئی عوامی انقلاب زیادہ سنگین ہو سکتا ہے۔
آج ہمیں جہاں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے ساتھ مسلم برادر ہ±ڈ کے ناطے اپنے روابط و مراسم بڑھانے کی ضرورت ہے جس کا عندیہ ترجمان دفتر خارجہ کے اس بیان سے بھی ملتا ہے کہ ہم بنگلہ دیشی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں‘ جن کا جذبہ انہیں ہم آہنگ مستقبل کی جانب لے جائیگا‘ ہمیں عوامی اضطراب کو پیشِ نظر رکھ کر اپنی اقتصادی اور مالی پالیسیوں کی سمت بھی درست کرنی ہے اور ملک کو سیاسی استحکام کی منزل سے بھی ہمکنار کرنا ہے۔ بنگلہ دیش کا انقلاب جہاں ہمارے حکمرانوں کیلئے لمحہءفکریہ ہے وہیں تبدیلی کی خواہش مند ہماری سیاسی قیادتوں کے خوش ہونے سے زیادہ ملک اور سسٹم کے مستقبل کیلئے فکرمند ہونے کا متقاضی ہے۔
بنگلہ دیش کے عوامی انقلاب کا پاکستان کے حالات سے موازنہ؟
Aug 09, 2024