پروفیسر محمد صدیق خان قادری
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ سیرت و کردار سے پھیلا ہے۔ کفر کے ظلمت کدے میں اسلام کا نور پھیلانے والے اولیائے کرام اور صوفیائے عظام نے پورے عالم میں عظمت ِاسلام اور توحید و رسالت کاپیغام دیا اور بھولی بھٹکی انسانیت کو خدائے واحد کے آگے سربسجود کیا۔ یہ وہ مردان خدا اور وارثان علوم مصطفیٰ ہیں کہ ان کے آستانے فیوض و برکات کے مراکز اور ستم رسیدہ اور الم دیدہ انسانیت کے لیے سکون و طمانیت اور راحت وعافیت کے منبع ہیں۔ جوبادشاہت جسموں پر قائم ہے وہ بڑی فانی اور زوال پذیر ہے مگر ان فقیروں کے اقتدار و اختیار کے کیا کہنے۔ ان کا سکہ تو دلوں کی نگری میں چلتا ہے اور ان کی بادشاہت توروحوں کی دنیا میں قائم ہے ۔وقت کی ہرگردش اور زمانے کی ہر الٹ پھیر، ان نفوس قدسیہ کی حکومت کو مستحکم سے مستحکم کرتی چلی جاتی ہے۔ ان اولیائے کرام کی رفعتوں اور عظمتوں کے پھریرے شرق و غرب میں لہرارہے ہیں اور تاقیامت لہراتے رہیں گے۔
شیخ الاسلام و المسلمین حضرت غوث بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی رحمتہ اللہ علیہ ان عظیم بزرگان دین اور صلحائے امت میں سے ہیں جنہوں نے برصغیر میں کفر، جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میںتوحید و رسالت اور علم و ہدایت کے وہ چراغ روشن کیے جن کی شعاعوں سے یہ خطہ ارضی منور ہوگیا۔ آپ ان نفوس قدسیہ میں سے ہیں جن سے خلق خدا کو رہتی دنیا تک صراط مستقیم کی رہنمائی ملتی رہے گی۔ کلمہ حق ان کا پیغام، صلح جوئی ان کا مسلک ،محبت ان کااثاثہ، عشق رسول ان کا ایمان اور خدمت خلق ان کا شعار تھا۔ آپ نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کیا۔ انہیں کفر سے ایمان، ظلمت سے نور ، سرکشی سے اطاعت اور مادہ پرستی سے روحانیت کی طرف بلایا۔ آپ نے توہمات اور تعصبات کے اندھیروں میں یقین اور اعلیٰ ظرفی کی روشنی پھیلائی۔ نفرتوں کی جگہ محبتوں کی تعلیم دی، آویزشوں کو صلح و آشتی میں بدلا اور ایک جنت نظیر معاشرہ تشکیل دیا۔ آپ نے اسلامی تہذیب و معاشرت، دینی نظریہ حیات، اخلاقی اقدار اور روحانی انقلاب کے ذریعے لوگوں کو نئی رفعتوں سے روشناس کرایا۔
حضرت غوث بہاء الدین زکریا سہروردی ؒ کا عہد ایک صدی پر محیط ہے۔ اس عرصے میں آپ نے علوم ظاہر و باطن اور مختلف فنون وہنر کو فروغ بخشا۔ ملتان مذہبی، تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے اسلام کا مرکز بن گیا۔ مساجد کی تعمیر، مدارس عربیہ کا قیام، لنگر خانوں کا اہتمام اور اسلامی فن تعمیر کی حامل روایات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
انوارغوثیہ میں ہے کہ حضرت غوث العالمین کے ارشادات و فرمودات سن کر برصغیر کے ہندو قبائل جن میں متمول تاجر اور بعض والیان ریاست بھی تھے، نے آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا۔ دیگر سلسلہ ہائے تصوف کی طرح سلسلہ سہروردیہ کے شیخ کامل نے تبلیغ کے ساتھ عمل پیہم،جہدمسلسل، انسانی فلاح اور خدمت خلق کا درس دیا۔ مخلوق خدا کی خدمت کے لیے تجارت و زراعت کو فروغ بخشا۔ افتادہ جنگلوں کو آباد کرایا۔ کنوئیں اور نہریں کھدوائیں۔ اور تجارت پر خاص توجہ دی۔ قریہ قریہ اور گائوں گائوں پہنچ کر لوگوں کو تجارت کی ترغیب دی اور اس طرح ان میں رزق حلال کے حصول کا جذبہ بیدار کیا اور ترک دنیا کی بجائے مال و دولت کے جائز حصول میں بھی حیات اخروی کو منزل مقصود قرار دیا۔ آپ کی تعلیمات میں جہد مسلسل اور سعی پیہم کا درس بار بار ملتا ہے۔
حضرت غوث بہاء الدین زکریا سہروردی نے بھی تصوف کی تمام مروجہ منازل کو طے کیا۔ آپ نے اسلام کی اخلاقی اور روحانی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی کے ذریعے پیش کیا۔ اسوہ حسنہ کی روشنی میں انسان کو معراج کمال پر پہنچایا اور تزکیہ نفس، تطہیر قلب اور عبادت کو خدا کے قرب کا ذریعہ قرار دیا۔ آپ نے اتباع رسول ؐ پر خاص زور دیا اور اپنی عملی زندگی سے اس کا بہترین نمونہ پیش کیا۔دین اسلام ایک طرف ظاہری اعمال سے متعلق ہے۔ جسے شریعت کہتے ہیں اور دوسری طرف انسان کے باطن سے متعلق ہے۔ جو طریقت ، معرفت اور حقیقت کا مجموعہ ہے اور دونوں کا سرچشمہ قرآن و سنت اور علمائے حق کا اجماع ہے۔
حضرت کا تصوف ارباب شریعت و طریقت کا مجمع البحرین ہے۔ آپ نے صوفیائے کرام کے انفرادی اور اجتماعی خیالات کو یکجا اور مربوط کردیا۔ اس لحاظ سے شیخ الاسلام ، مشرقِ نور یقین اور منبع صدق و یقین تھے۔ وہ ایسے مرشد کامل تھے جن سے اولیاء کے بہت سے طریقے شرف و بلندی سے آراستہ ہو تے ہیں۔ آپ علوم ظاہر و باطن، فقہ و حدیث اور اصول و فروع میں کامل اور اپنے عہد کے شیخ الاسلام والمسلمین تھے۔حضرت غوث العالمین علم و حکمت، عرفان و آگہی اور دانش و بصیرت کے جس منصب پر فائز تھے۔ استحقاق کی بنیاد پر ان کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے گا ۔
حضرت غوث بہاء الدین زکریا ملتانی نے تقریباً 850 برس پیشتر سرزمین ملتان کو تبلیغ دین اور اشاعت علوم اسلامیہ کا مرکز ومنبع بنایا اور ملتان میں علوم اسلامی کی عظیم درسگاہ قائم کی جسے برصغیر کی پہلی اقامتی درسگاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ ایک عظیم اخلاقی اور روحانی درسگاہ بھی تھی۔ اس میں مختلف علوم و فنون سکھائے جاتے تھے۔ آپ کی درسگاہ سے 70ہزار طالبان علم اور سالکان راہ طریقت فیض یاب ہوئے۔ آپ کے خلفاء میں حضرت مخدوم سید جلال الدین بخاری اوچوی ۔ حضرت مخدوم سید محمد عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر ؒ۔ میر سادات حسینی ؒ، مولانافخرالدین عراقی، حضرت خواجہ حسن افغان ؒ،شیخ موسیٰ نواب ؒ اورآپ کے صاحبزادے حضرت شیخ صدر الدین عارف ؒ شامل ہیں۔ آپ کے خلفاء اور تلامذہ نے بنگال، کشمیر، جاوا، سماٹرا، انڈونیشیاء، ملائیشیا اور نو آزاد مسلم ریاستوں میں پھیل کر تبلیغ دین اور اشاعت اسلام میں بھرپور کردار ادا کیا۔ مساجد و مدارس اور مقابر تعلیم و تدریس کا ذریعہ بن گئے۔
آپ کے ارشادات و فرموات اور تعلیمات محض آپ کے اردات مندوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے اسلامی معاشرے کے لیے ہیں۔ ان تعلیمات میں مستقل روحانی علاج اور رہتی دنیا تک تازگی کا احساس باقی رہنے والا ہے۔
-1آپ ؒ ارشاد فرماتے ہیں:
’’بدن کی سلامتی قلت طعام میں، روح کی سلامتی ترک گناہ میں اور دین کی سلامتی حضرت خیر الانام محمدمصطفیٰ ؐپر درود بھیجنے میں ہے‘‘۔ حضور ؐ سرور کائنات کی محبت تقاضائے ایمان ہے۔ آپ کی ذات والاصفات وجہ تکوین کائنات اور سرچشمہ برکات ہے۔ عبادت سراسر آپ کی پیروی کانام ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں مسلمانوں کو حضور ؐ اکرم کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔
-2ایک موقع پر فرماتے ہیں:تم اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر کو اپنے اوپر لازم کرلو۔ ذکر ہی قالب محب تک پہنچتا ہے اور یہی وہ ذکر ہے جس کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔
-3اسلام عدل و مساوات، ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم ان اقدار کو اپنالیں تو ایک ایسا عملی نظام وجود میں آجائے گا جو بذات خود ، معاشی ناانصافیوں کا خاتمہ اور سماجی محرومیوں کا ازالہ کردے گا اور یوں ہم طبقاتی ہم آہنگی اور علاقائی خیر سگالی کی نعمتوں سے بہرہ مندہ ہوسکیں گے۔
-4اسلام حق گوئی کا پیغام دیتا ہے۔ شیخ الاسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ اقوال وافعال میں اپنے نفس کا محاسبہ ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر معاملے میں اپنے ضمیر سے رہنمائی حاصل کرے۔ اگر انسان خوف خدا رکھتا ہو تو اس کا نفس ہر دوسر ے خوف سے آزاد ہوجاتا ہے۔
-5آپ تبلیغ اسلام کے لیے دور دراز علاقوں میں جانے والے وفود کو تلقین کرتے تھے کہ اپنی تبلیغی مساعی کے دوران کبھی دست سوال دراز نہ کرنا اور اپنے لیے وسیلہ روزگار خود مہیا کرنا۔
حضرت شیخ الاسلام بہاء الدین زکریا ؒ نے 7صفر المظفر سن 661ہجری میں وصال فرمایا ۔آپ کا 785واں سہ روزہ سالانہ عرس 5تا7صفر المظفر درگاہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ قاسم باغ مدینتہ الاولیاء ملتان میں سابقہ روایات کے مطابق عقیدت و احترام سے منعقد ہو رہا ہے۔ جس میں پاکستان بھر کے علاوہ بیرون ملک سے بھی ہزاروں زائرین شریک ہوں گے۔ عرس کی تقریبات دربار کے سجادہ نشین اور سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود حسین قریشی کی زیر صدار ت منعقد ہوں گی۔ حضرت غوث بہاء الدین زکریاؒ کا مزار رشد و ہدایت کا مرکز اور مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت و محبت کی علامت ہے۔ علم و عرفان ، دانش و بصیرت اور حکمت و دانائی کی جوشمع، شیخ الاسلام نے روشن کی تھی اس نے پورے جنوبی ایشیاء کو اسلام کے نور سے منور کیا ہے۔ یہ نورانیت اور روحانیت صدیاں گزرنے کے بعد بھی قائم و دائم ہے اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک رہے گی۔ہمیں اپنی معاشرتی زندگی کو صحیح رخ دینے کے لیے جس روحانی روشنی کی ضرورت ہے۔ وہ حضرت شیخ الاسلام نے عطا کردی ہے۔ حضرت کے نام لیوا اور درگاہ غوثیہ کے عقید ت مندکی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی تعلیمات کی روشنی میں ملت اسلامیہ کے اتحاداور پاکستان کی یک جہتی و سا لمیت کے لیے موثر کردار ادا کرتے رہیں۔