کراچی (قمر خان) نوائے وقت سے تقریباً 25 برس وابستہ معروف کالم نگار و سابق وفاقی مشیر وزیر نصرت مرزا نے نوائے وقت کے سلسلہ ’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ کے لئے اپنی یادداشتیں رقم کراتے ہوئے بتایا کہ جب پاکستان بنا تو میں اس وقت پانچ سال کا تھا لیکن میں مجھے بہت سی یادیں آج بھی ازبر ہیں۔ ہم لوگ دلی سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پہ ایک چھوٹے سے شہر میں رہتے تھے۔ پاکستان جانے کا تو اس وقت ذہن میں نہیں تھا کیونکہ ہمارے اجداد وہاں کے جاگیردار تھے۔ ایک اچانک اطلاع ملی ہم پر بلوائی حملہ کرنے اس لیے آ رہے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم وہاں کے زمیندار ہیں۔ ہماری والدہ صاحبہ نے فیصلہ کیا ہمیں فوراً نکل جانا چاہیے۔ اس وقت ہماری دو بہنیں اور ہم دو بھائی اور ایک والدہ تھیں۔ انہوں نے اسی وقت کچھ پیسے اور کچھ زیورات لے لیے اور ہم کسی دوسری جگہ پہ آ گئے جو مسلمانوں کام محلہ تھا۔ ایک روز وہاں بلوائیوں نے حملہ کر دیا اور چھتوں کے اوپر سے فائرنگ کا مقابلہ ہوتا رہا مگر مسلمانوں کے پاس کارتوس اتنے زیادہ نہیں تھے جبکہ بلوائیوں کا پولیس ساتھ دے رہی تھی لہٰذا فیصلہ ہوا کہ ریلوے اسٹیشن کی جانب نکلا جائے۔ تو ریلوے اسٹیشن جب پہنچ گئے تو وہاں پر ایک انگریز کپتان حفاظت کر رہا تھا۔ اس کو بلوائیوں نے آ کے کہا کہ صاحب مسلمان جو یہاں جمع ہوئے ہیں ہم ان کو مارنا چاہتے ہیں تو اس نے کہا یہ کیوکہ ہمارے ریلوے اسٹیشن آ گئے ہیں تو یہ میرے علاقہ ہے اور اگر اس پہ تم نے حملہ کیا تو میں تمہیں گولیاں تو بھون دوں گا جتنی گولیاں تمہارے پاس ہیں اس سے دگنی میرے پاس ہیں۔ خوف کے باوجود ہم اور ہمارے کئی رشتہ دار ٹرین میں سوار ہو گئے۔ میری والدہ کے رشتے دار فوج میں ملازمت کرتے تھے اور وہ چھٹیوں پہ آئے ہوئے تھے وہ بھی ساتھ ہو لئے اور ہم کسی نہ کسی طرح تین روز کے بھوکے پیاسے حیدر آباد پہنچ گئے جہاں مکان ہم نے خریدا اور رہنا شروع کر دیا۔ ہم تین دن کے بھوکے پیاسے حیدر آباد پہنچے تھے۔ اجمیر شریف میں کھانا لوگوں نے بانٹا، مسلمانوں نے لیا لیکن ہمارے خاندان نے نہیں لیا۔ حیدر آباد پہنچنے پر بھی کھانا بانٹا جا رہا تھا مگر میری والدہ نے پیسوں سے کھانا منگوا کر ہمیں کھلایا۔ حیدر آباد میں ہندوئوں کی بڑی تعداد خوف سے بھارت فرار ہو چکی تھی جن کی جائیداد باآسانی مل جایا کرتی تھی تاہم ہمارے والدین نے یہ جائیداد لینا گوارہ نہ کیا۔ حیدر آباد میں مسلم لیگ کے سندھی لوگ بہت مدد کر رہے تھے جن میں قاضی اکبر، قاضی عابد کی فیملی نمایاں تھی۔ وہ میونسپل کمشنر بھی تھے۔ اس زمانے میں انہوں نے ہجرت کر کے آنے والوں کو اسکولوں کو خالی کرا کر بسایا۔ بعد میں چھوٹے چھوٹے سکول کھلنے شروع ہو گئے ہمارے لوگوں نے اپنا سکول کھول لیا دارالاسلام اسلامیہ کے نام سے۔ یہاں سے سندھ کی ترقی کا درخشاں دور شروع ہوا۔ یہ ایک بارش تھی جس نے تعلیم کے میدان میں سندھ کو سیراب کیا۔