حسینہ واجد کی بنگلادیش واپسی سے متعلق بڑا اعلان

بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد جوائے کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی حسینہ واجد واپس اپنے ملک جائیں گی۔بھارتی میڈیا کو انٹرویو میں حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد جوائے کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد عارضی طور پر بھارت میں مقیم ہیں۔ بنگلادیش کی عبوری حکومت جیسے ہی انتخابات کی تاریخ اعلان کرے گی حسینہ واجد واپس اپنے ملک جائیں گی۔حسینہ واجد کے بیٹے نے مزید کہا کہ مجھے یقین ہے کہ عوامی لیگ انتخابات میں حصہ لے گی اور بھرپور کامیابی حاصل کرے گی۔اگر ضرورت پڑی تو میں بھی باقاعدہ سیاست میں قدم رکھوں گا۔دوسری جانب برطانیہ کے وزیرخارجہ نے بھارتی ہم منصب کوفون کیا اور بنگلا دیش کی صورتحال پرتبادلہ خیال کیا .تاہم دونوں رہنماؤں کی گفتگو کی تفصیل جاری نہیں کی گئی۔ بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد طلبا تحریک کے نتیجے میں حکومت ختم ہونے کے بعد بھارت فرار ہوگئی تھیں اور تاحال بھارت میں مقیم ہیں۔انہوں نے کہا کہ بنگلادیش کی عبوری حکومت جیسے ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گی حسینہ واجد واپس اپنے ملک جائیں گی۔حسینہ واجد کے بیٹے نے مزید کہا کہ مجھے یقین ہے کہ عوامی لیگ انتخابات میں حصہ لے گی اور بھرپور کامیابی حاصل کرے گی.ضرورت پڑی تو میں بھی باقاعدہ سیاست میں قدم رکھوں گا۔

بنگلادیش میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کے خلاف گزشتہ ماہ کئی روز تک مظاہرے ہوئے تھے جن میں 200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا تھا۔مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف نہ ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دے تھی اور ڈھاکا کی طرف مارچ کا اعلان کیا تھا۔سول نافرمانی کی تحریک چلانے والے طلبہ نے وزیراعظم حسینہ واجد سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا اور کرفیو کے باوجود ڈھاکا کی جانب مارچ کا اعلان کیا تھا۔4 اگست کو طلبہ کے احتجاج کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں اموات کی تعداد 100 سے زائد ہوگئی تھی جبکہ مجموعی طور پر حکومت مخالف احتجاج سے 300 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔5 اگست کو  بنگلادیشی فوج نے وزیراعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہونے کے لیے 45 منٹ کی ڈیڈلائن دی تھی. جس کے بعد وہ استعفیٰ دے کر بھارت چلی گئیں جبکہ آرمی چیف نے ملک میں عبوری حکومت بنانے کا اعلان کردیا۔شیخ حسینہ واجد کے استعفے اور پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کو بنگلادیش کی عبوری حکومت کا سربراہ نامزد کیا گیا تھا جن کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم ہوگئی۔عبوری حکومت کی سربراہی کے لیے پروفیسر محمد یونس کا نام طلبہ تحریک کے رہنماؤں کی جانب سے دیا گیا تھا۔

ای پیپر دی نیشن