میری پیاری ”مون مارکیٹ علامہ اقبال ٹاﺅن“ کا المیہ

اصغر علی کوثر وڑائچ ۔۔۔
مون مارکیٹ علامہ اقبال ٹاﺅن لاہور ایک ایسا عظیم الشان تجارتی مرکز ہے جس نے ہماری نگاہوں کے سامنے پیدائش و پرورش پائی اور اس کی ترقی و خوشحالی روز افزوں رہی، پاکستان میں جو واقعات ہو رہے ہیں اور دشمن جس طرح پاکستان پر، وار کرتا چلا آ رہا ہے اس کے باعث وہ خدشہ تو موجود ہوتا ہے کہ کسی وقت بھی اور کہیں بھی کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے چنانچہ مون مارکیٹ کو بھی کسی بدبخت کی نظر لگ گئی اور 7 دسمبر 2009ءکو رات تقریباً 9 بجے اس میں دو ایسے تباہ کن دھماکے کئے گئے کہ اس مارکیٹ کا رنگ اور روپ ہی بدل گیا، ہمارا گھر مون مارکیٹ سے چند قدم کے فاصلے پر ہے اور ہم بھی اکثر شام کو سودا سلف خریدنے کے لئے پیدل ہی اس مارکیٹ میں چلے جایا کرتے ہیں، وہ سستے کھانوں اور مہنگے ترین طعام کا طشت بھی مزین رکھتی ہے، علامہ اقبال ٹاﺅن درمیانے درجے کی اقتصادی حیثیت کے ان لوگوں کی بستی ہے جو رات گئے تک اس مارکیٹ میں چہل پہل رکھتے ہیں۔ دسمبر 2009ءکی سہانی شام بھی عورتوں، بچوں اور مردوں کو کشاں کشاں اس مارکیٹ کی طرف لا رہی تھی، ہم 2 بجے سے ساڑھے پانچ بجے تک ایوانِ اقبال میں منعقدہ ایک کانووکیشن میں موجود رہے تھے۔ وہاں گورنر پنجاب نے طلبا و طالبات کو ڈگریز عطا کی تھیں پھر وہاں سے ہم ایوانِ کارکنانِ تحریک قیام پاکستان پہنچے جہاں سے پاکستان موومنٹ ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری رفاقت ریاض رانا ہمیں جہاں زیب بلاک علامہ اقبال ٹاﺅن میں ڈراپ کر گئے، کچھ دیر کے بعد ہم نے ایک دھماکے کی آواز سنی اور یوں لگا کہ کوئی منوں اور ٹنوں وزنی پتھر ہمارے مکان کی چھت پر آ گرا تھا زمین بھی لرز گئی۔ ہم ابھی وہ غور کر ہی رہے تھے کہ آیا وہ آواز کسی دھماکے کی آواز تو نہیں تھی کہ ایک منٹ سے بھی پہلے ایک اور خوفناک دھماکہ ہوا، چنانچہ گھر کے صدر دروازے سے باہر جھانکا تو لوگوں کو متجسس انداز میں ادھر ادھر بھاگتے دیکھا اور واضح ہو گیا کہ مون مارکیٹ پر کوئی حادثہ گزر گیا تھا۔ ان دھماکوں کے ساتھ ہی اندھیرا چھا گیا مگر ہم اس اندھیرے ہی میں مارکیٹ پہنچے اس وقت تک لوگ بیان کر رہے تھے کہ ایک دھماکہ نیشنل بینک آف پاکستان کے عقب میں اور دوسرا تقریباً 100 گز دور مسلم کمرشل بینک کے قریب ہوا تھا۔ امدادی محکمے بھی متحرک ہو چکے تھے۔ فائر بریگیڈ اور ایمبولینسز بھی جائے حادثہ پر پہنچ رہی تھیں۔ دراصل اس مارکیٹ کے تمام برآمدوں میں چھوٹے چھوٹے سٹالز لگا لئے جاتے ہیں جن پر گارمنٹس اور دیگر اشیاءفروخت کی جاتی ہیں، شاید دھماکوں کی آتش نے ان کو شعلہ بداماں کر دیا اور عین اس وقت بچے اور عورتیں اور مرد نہ جانے کتنی تعداد میں لقمہ¿ اجل بن چکے تھے، آگ بھڑک اٹھنے سے دکانیں شعلوں کی لپیٹ میں آنے لگیں، دکانداروں نے اپنی دکانیں کھلی چھوڑ کر باہر بھاگنا شروع کر دیا۔ اس وقت گاہک بھی تو دکانوں کے اندر ہوں گے، نجانے انہوں نے اپنے تحفظ کا کیا انتظام کیا ہو گا اور وہ محفوظ رہ بھی سکے ہوں گے کہ نہیں۔ نیشنل بینک آف پاکستان کے عقب میں جس جگہ دھماکہ ہوا وہاں نان چنا، کباب اور چپس فروخت کرنے والوں نے اپنا ڈیرہ جمایا ہوا ہوتا تھا، خدا جانے ان پر کیا گزری۔ شیخ زاید ہسپتال، جناح ہسپتال، سروسز ہسپتال، میو ہسپتال اور دیگر ہسپتالز میں ہنگامی بنیادوں پر زخمیوں کو سنبھالنے کی کوشش کی جا ری تھی۔ ابھی کسی کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کتنی جانیں لقمہ¿ اجل بن چکی تھیں، دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے اور ہم مین بلیوارڈ کی طرف لوگوں کے ہجوم میں کھڑے ہو کر امدادی کارروائیوں کی اخلاقی معاونت کر رہے تھے، ابھی کچھ پتہ نہیں کہ کتنے لوگ دھماکوں میں اور کتنے لوگ دھماکوں سے پھیلنے والی آگ کی لپیٹ میں آ کر یا دکانوں کے اندر پھنس کر دار فانی سے رخصت ہو گئے البتہ اخبارات کو بتایا گیا کہ 47 افراد تو جاں بحق ہوئے جبکہ 150 شدید زخمی تھے۔

ای پیپر دی نیشن