حکیم پروفیسر عنایت اللہ نسیم کا شمار پاکستان کے اہل علم وفضل اور دانش و حکمت کے زعما میں ہوتا ہے وہ گوجرانوالہ کے ایک نواحی بستی سوہدرہ میں 1911ءمیں پیدا ہوئے۔ جو بابائے صحافت و سیاست مولانا ظفر علی خان کے وطن مالوف سے چند میل کے فیصلےہ پر واقع ہے۔ مولانا نے عنایت اللہ نسیم کے جوہر کو ان کے بچپن میں ہی پہچان لیا تھا۔ انہوں نے ہی طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے انہیں علی گڑھ جانے کا مشورہ دیا۔ اپنی تعلیمی زندگی کے دوران انہوں نے تین فرزندان علی گڑھ یعنی مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان اور محمد علی جوہر کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی دیکھی اور ان کے عمل، تہذبی اور سیاسی زندگی کے نقوش کو جزو جان بنانے کی کوشش کی اور علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے پیغام کو پھیلانے کےلئے سیاسی مقالہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کا شمار ایسے قلم کاروں میں ہوتا ہے جو ”نوائے وقت“ کے ابتدائی دور میں ہی اس اخبار میں مضامین لکھنے لگے تھے۔ ان کے مضامین برعظیم ہند کے مسلمانوں کے دلی جذبات اور مطالبہ پاکستان کی طرفداری اور وکالت کرتے تھے۔ اس لئے ”نوائے وقت“ کے بانی جناب حمید نظامیؒ انہیں اس اخبار میں نمایاں طور پر شائع کرتے۔ آزادی کے بعد جب عنایت اللہ نسیم اپنے وطن مالوف میں واپس آ گئے تو انہیں حمید نظامیؒ سے ملاقاتوں کا شرف بھی حاصل ہوا اور ان کی اچانک وفات کے بعد جب ”نوائے وقت“ کی عنان ادارت بڑے مشکل حالات میں جناب مجید نظامی نے سنبھالی تو انہوں نے بھی حکمی صاحب کی قدرو منزلت میں کوئی کمی نہ رکھی۔ ان کے مضامین کو ادارتی صفحے پر شائع کیا اور یہ سلسلہ حکیم عنایت اللہ نسیم کی وفات (9دسمبر 1994) تک جاری رہا کچھ عرصے کے بعد ادارہ نوائے وقت کے ایک رکن نے حکیم صاحب پر ایک کتاب”پاکستان کا ایک بطل حریت“ کے سابقے سے لکھی تو مجید نظامی صاحب نے اس کا ”پیش لفظ“ رقم فرمایا۔ یہ پارہ¿ ادب اس لئے اہم ہے کہ اس میں نظامی صاحب نے حکیم عنایت اللہ نسیم کے تمام اوصاف قلم و کردار اجمال سے بیان کر دیئے ہیں۔ حکیم صاحب کی2009ءکی برسی پر راقم انور سدید انہیں جناب مجید نظامی کے حوالے سے یاد کر رہا ہے۔ نظامی صاحب کی رائے میں:
”پروفیسر حکیم پروفیسر عنایت اللہ نسیم عقائد، انسانوں اور اداروں سے اپنی نسبتیں راسخ رکھنے والے انسان تھے.... مولانا ظفر علی خان سے انہوں نے اپنی ارادت مندی کی نسبت بچپن میں قائم کی اور یہ بابائے صحافت کے یوم وفات تک قائم رہی۔ بعد میں انہوں نے ظفر علی خان پرمضامین لکھ کر، ان پر ایک کتاب تالیف کر کے ان کی یاد میں جلسے منعقد کر کے اور مرکزیہ مجلس ظفر علی خان قائم کر کے اس نسبت کو تابانی دی۔ اسلام اور نبی آخرﷺ سے ارادت مندی ان کے ایمان کا حصہ تھی اور تبلیغ حق کا فرض یوں ادا کیا کہ دین اسلام کی حقانیت اور ختم نبوت کے مسئلہ پر”نوائے وقت“ میں متعدد مضامین لکھے۔ نبی اکرمﷺ پر ایک کتاب”رسول کائنات“ تالیف کی جوان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے حکیم راحت نسیم نے شائع کی“۔
”پاکستان کے عظیم رہنماﺅں میں انہیں علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر اور قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا اور ان سب سے ان کا نظریاتی تعلق تاحیات مضبوطی سے قائم رہا۔ انہوں نے حسرت موہانی، ظفر علی خان اور محمد علی جوہر پر ”علی گڑھ کے تین فرزندان“ کے نام سے ایک کتاب بھی تصنیف کی۔ قائداعظم پر انہوں نے جو کتاب تحریر کی اسے قائداعظم کے شیدائی اور کفرستان ہند میں اقبال اور قائداعظم کے سیاسی پیغام کو فروغ عام اور پاکستان کو استحکام و اثبات دینے والی شخصیت حمید نظامی کے نام معنون کی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب جلد شائع ہونے والی ہے“۔
”نوائے وقت“ سے ان کا تعلق بانی نوائے وقت حمید نظامی کی زندگی میں شروع ہو گیا تھا۔ حمید نظامی صاحب کے سانحہ ارتحال تک قائم رہنے کے بعد میری طرف منتقل ہو گیا اور کبھی ختم نہ ہوا۔ عنایت اللہ نسیم صاحب کی یہ نسبت سابقہ تمام نسبتوں کیطرح مضبوط تھی۔ تاریخی لحاظ سے یہ بات بھی اہم ہے کہ ان کا آخری مضمون جو انہوں نے بستر علالت سے لکھا تھا۔ ”نوائے وقت“ میں ان کی وفات کے چھ روز بعد شائع ہوا۔ ان کے بعض تاریخی مضامین قند مکرر کے طور پر ”نوائے وقت“ میں اب بھی پیش کئے جاتے ہیں۔
”پروفیسر حکیم پروفیسر عنایت اللہ نسیم عقائد، انسانوں اور اداروں سے اپنی نسبتیں راسخ رکھنے والے انسان تھے.... مولانا ظفر علی خان سے انہوں نے اپنی ارادت مندی کی نسبت بچپن میں قائم کی اور یہ بابائے صحافت کے یوم وفات تک قائم رہی۔ بعد میں انہوں نے ظفر علی خان پرمضامین لکھ کر، ان پر ایک کتاب تالیف کر کے ان کی یاد میں جلسے منعقد کر کے اور مرکزیہ مجلس ظفر علی خان قائم کر کے اس نسبت کو تابانی دی۔ اسلام اور نبی آخرﷺ سے ارادت مندی ان کے ایمان کا حصہ تھی اور تبلیغ حق کا فرض یوں ادا کیا کہ دین اسلام کی حقانیت اور ختم نبوت کے مسئلہ پر”نوائے وقت“ میں متعدد مضامین لکھے۔ نبی اکرمﷺ پر ایک کتاب”رسول کائنات“ تالیف کی جوان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے حکیم راحت نسیم نے شائع کی“۔
”پاکستان کے عظیم رہنماﺅں میں انہیں علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر اور قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا اور ان سب سے ان کا نظریاتی تعلق تاحیات مضبوطی سے قائم رہا۔ انہوں نے حسرت موہانی، ظفر علی خان اور محمد علی جوہر پر ”علی گڑھ کے تین فرزندان“ کے نام سے ایک کتاب بھی تصنیف کی۔ قائداعظم پر انہوں نے جو کتاب تحریر کی اسے قائداعظم کے شیدائی اور کفرستان ہند میں اقبال اور قائداعظم کے سیاسی پیغام کو فروغ عام اور پاکستان کو استحکام و اثبات دینے والی شخصیت حمید نظامی کے نام معنون کی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب جلد شائع ہونے والی ہے“۔
”نوائے وقت“ سے ان کا تعلق بانی نوائے وقت حمید نظامی کی زندگی میں شروع ہو گیا تھا۔ حمید نظامی صاحب کے سانحہ ارتحال تک قائم رہنے کے بعد میری طرف منتقل ہو گیا اور کبھی ختم نہ ہوا۔ عنایت اللہ نسیم صاحب کی یہ نسبت سابقہ تمام نسبتوں کیطرح مضبوط تھی۔ تاریخی لحاظ سے یہ بات بھی اہم ہے کہ ان کا آخری مضمون جو انہوں نے بستر علالت سے لکھا تھا۔ ”نوائے وقت“ میں ان کی وفات کے چھ روز بعد شائع ہوا۔ ان کے بعض تاریخی مضامین قند مکرر کے طور پر ”نوائے وقت“ میں اب بھی پیش کئے جاتے ہیں۔