پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بر ی طر ح الجھا ہو ا ہے جبکہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں خودکش حملے اور دہشت گرد کاروائیاں ہمارے لیے ایک روٹین کا معمول بن چکی ہیں۔ہر سنگین واقعہ کے بعد اعلیٰ سیاسی و عسکری عہدوں پر فائز قائدین سخت ترین الفاظ میں ذمہ دار عناصر کو مثالی سزائیں دینے اور متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت پر مشتمل بیانات داغنے کے سواان انسانیت سوز واقعات کا کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیتے۔ ایسے محسوس ہوتاہے کہ ایک واقعہ کے بعد دوسرے واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے ہی وہ اس میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف اپنے مذمتی بیانات تیار کر لیتے ہیںاور انھیںمشینی انداز میں جاری کر کے اپنے تئیںاپنے فرائض منصبی سے عہدہ بر آہو جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے معاشرے کے تمام طبقات پربھی یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ حکومتی رٹ کے موثر نفاذاور دہشت گرد عناصر کے خلاف فیصلہ کن اقدام میں ناکام رہنے والے نفاذ قانون و امن عامہ کے ذمہ دار حکام کے خلاف اپنے سماجی دباﺅ کو بروئے کار نہیں لاتے۔
چند روز قبل راولپنڈی میں قاسم مارکیٹ کی پریڈ لین مسجد میںہونے والا الم ناک واقعہ شائد ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کا موقع فراہم کر سکے جس میں اعلیٰ عسکر ی افسران اور ان کے معصوم بچوں سمیت بعض سولین افرادبھی جاں بحق ہوئے ۔ اب یہ کوئی راز دار ی کی بات نہیں رہی کہ ا ن انسانیت سوز وا قعات کے پس پردہ بھارتی، اسرائیلی، روسی اور بدنام زمانہ بلیک واٹر جیسے عناصر کا ہاتھ ہے۔ ہر فرد اس بات پر متفق ہے کہ کرائے کے قاتلوں کے سوا کوئی مسلمان مساجد میںمصروف عبادت اپنے بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے گناہ عظیم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔
اس امر میں شک و شبہ کی ذرا بھر گنجائش نہیں رہی کہ پارک لین مسجد میںہونیوالا خوفناک واقعہ ہمار ی قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین وارننگ ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم من حیث القوم اجتماعی طور پرمحاسبہ کے لیے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور جائزہ لیں کہ گذشتہ 62 برسوں پر محیط عرصے میں ہم تاحال قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصو ر کے مطابق پاکستان کی تعمیرو تحفظ کے مقاصد کو کیوں پورا نہیں کر سکے۔سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی جیسے عظیم سانحہ کے بعد بھی ہم اپنے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو کیوں نہیں پہچان سکے۔کیا وجہ ہے کہ اب تک ہمار ی اکثریتی آبادی غربت و افلاس، جہالت و بیماری اور عدم استحکا م کی شکار ہے۔اگر ہم سب نے بحیثیت پاکستانی اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہوتیں اور ہمارا حکمران طبقہ اپنے ذاتی مفادات و اغراض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی وسائل کو ملک کی تعمیرو ترقی اور عوام کی آسودہ حالی کے لیے استعمال میں لاتا تو آج ہم ان حالات سے دوچار نہ ہوتے جن کا سامنا ہمیں پاکستان دشمنوں اور ان کے کرایہ دار ساتھیوں کی ملی بھگت کے نتیجے میں کرنا پڑ رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر اب بھی ہم نے اس اجتماعی خودکشی کے راستے کو ترک نہ کیا تو نتیجہ آئندہ بھی وہی نکلے گا جس کا منظرنامہ ہم پارک لین کی مسجد میں دیکھ چکے ہیں کیونکہ ہمارے ازلی دشمن ہمار ی کمزوریوں سے فائد ہ اٹھا کر ہم پر وار کرتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کی بھی یہ سنت ہے کہ وہ راہ راست سے بھٹکنے اور اپنی حالت خود نہ بدلنے والی قوم کی کوئی مدد و اعانت نہیں کرتا۔
چند روز قبل راولپنڈی میں قاسم مارکیٹ کی پریڈ لین مسجد میںہونے والا الم ناک واقعہ شائد ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کا موقع فراہم کر سکے جس میں اعلیٰ عسکر ی افسران اور ان کے معصوم بچوں سمیت بعض سولین افرادبھی جاں بحق ہوئے ۔ اب یہ کوئی راز دار ی کی بات نہیں رہی کہ ا ن انسانیت سوز وا قعات کے پس پردہ بھارتی، اسرائیلی، روسی اور بدنام زمانہ بلیک واٹر جیسے عناصر کا ہاتھ ہے۔ ہر فرد اس بات پر متفق ہے کہ کرائے کے قاتلوں کے سوا کوئی مسلمان مساجد میںمصروف عبادت اپنے بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے گناہ عظیم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔
اس امر میں شک و شبہ کی ذرا بھر گنجائش نہیں رہی کہ پارک لین مسجد میںہونیوالا خوفناک واقعہ ہمار ی قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین وارننگ ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم من حیث القوم اجتماعی طور پرمحاسبہ کے لیے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور جائزہ لیں کہ گذشتہ 62 برسوں پر محیط عرصے میں ہم تاحال قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصو ر کے مطابق پاکستان کی تعمیرو تحفظ کے مقاصد کو کیوں پورا نہیں کر سکے۔سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی جیسے عظیم سانحہ کے بعد بھی ہم اپنے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو کیوں نہیں پہچان سکے۔کیا وجہ ہے کہ اب تک ہمار ی اکثریتی آبادی غربت و افلاس، جہالت و بیماری اور عدم استحکا م کی شکار ہے۔اگر ہم سب نے بحیثیت پاکستانی اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہوتیں اور ہمارا حکمران طبقہ اپنے ذاتی مفادات و اغراض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی وسائل کو ملک کی تعمیرو ترقی اور عوام کی آسودہ حالی کے لیے استعمال میں لاتا تو آج ہم ان حالات سے دوچار نہ ہوتے جن کا سامنا ہمیں پاکستان دشمنوں اور ان کے کرایہ دار ساتھیوں کی ملی بھگت کے نتیجے میں کرنا پڑ رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر اب بھی ہم نے اس اجتماعی خودکشی کے راستے کو ترک نہ کیا تو نتیجہ آئندہ بھی وہی نکلے گا جس کا منظرنامہ ہم پارک لین کی مسجد میں دیکھ چکے ہیں کیونکہ ہمارے ازلی دشمن ہمار ی کمزوریوں سے فائد ہ اٹھا کر ہم پر وار کرتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کی بھی یہ سنت ہے کہ وہ راہ راست سے بھٹکنے اور اپنی حالت خود نہ بدلنے والی قوم کی کوئی مدد و اعانت نہیں کرتا۔