چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی کی سربراہی میں جسٹس غلام ربانی اور جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے اڈیالہ جیل کے لاپتا گیارہ قیدیوں کے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ راجہ ارشاد نےعدالت کو بتایا کہ وہ آئی ایس آئی، آئی بی، آئی ایم اور فیڈریشن آف پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں،انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہےکہ خفیہ ادارے عدلیہ کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتے، یہ ادارے عدالت عظمیٰ کو آئینی اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل سے رہا ہونے والے گیارہ افراد کو خفیہ اداروں نے حراست میں لیا ہے کیونکہ یہ تمام افراد حمزہ کیمپ،
جی ایچ کیو، کامرہ کملیکس، آرمی افسران اور دیگر دفاعی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں،ان گیارہ افراد کو حراست میں لے کر شمالی علاقہ جات میں لے جایا گیا ہے تاکہ دہشتگردوں کے مزید ٹھکانوں کی نشاندہی ہو سکے، انہوں نے بتایا کہ ان افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت
حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش کا عمل جاری ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ان افراد سے قانون کی روشنی میں نمٹا جائے اور انکے لواحقین سے ملاقات کااہتمام کیا جائے، سپریم کورٹ نے وکیل ارشاد احمد کو کل عدالت میں تحریری بیان جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
جی ایچ کیو، کامرہ کملیکس، آرمی افسران اور دیگر دفاعی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں،ان گیارہ افراد کو حراست میں لے کر شمالی علاقہ جات میں لے جایا گیا ہے تاکہ دہشتگردوں کے مزید ٹھکانوں کی نشاندہی ہو سکے، انہوں نے بتایا کہ ان افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت
حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش کا عمل جاری ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ان افراد سے قانون کی روشنی میں نمٹا جائے اور انکے لواحقین سے ملاقات کااہتمام کیا جائے، سپریم کورٹ نے وکیل ارشاد احمد کو کل عدالت میں تحریری بیان جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔