منشیات کا عفریت.... جو بنی نوع انساں کو کھائے جا رہا ہے

Dec 09, 2012

محمد الطاف قمر

صدر پاکستان نے بھی چند روز قبل اسلام آباد میں منشیات کے موضوع پر منعقد ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بنی نوع انسان کو دو بلاﺅں نے بری طرح گھیر رکھا ہے ایک دہشت گردی اور دوسری منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال اور پھیلاﺅ۔ دنیا بھر کی حکومتیں ان کی تباہ کاریوں سے لرزہ براندام ہیں اور ان سے نمٹنے کیلئے ہرممکن کوشش اور ہرممکن وسائل استعمال کر رہی ہیں۔ مختلف بین الاقوامی تنظیمیں بھی اپنے اپنے طور پر اپنے ماہرین اور وسائل کے ساتھ ان بلاﺅں کو مار بھگانے کیلئے نبرد آزما ہیں لیکن یہ بلائیں ہیں کہ بنی نوع انسان کا خون چوستی چلی جا رہی ہیں اور مسلسل پھل پھول رہی ہیں اور ڈر ہے کہ اگر حکومتوں اور اداروں کے ساتھ ساتھ خود عوام، کہ جن کو ہی یہ بلائیں کھائے جا رہی ہیں، ان کے خلاف پوری طرح اٹھ کھڑے نہ ہوئے اور ان کو اپنے اندر اور ارد گرد سے مار نہ بھگایا تو پھر بنی نوع انسان کو تباہ کرنے کیلئے کسی عالمگیر جنگ یا مہلک جوہری ہتھیاروں کی ضرورت نہ رہے گی۔ دہشت گردی سردست میرا موضوع نہیں ہے، اس وقت میں صرف منشیات اور اسکی تباہ کاریوں کو عالمی اور ملکی تناظر میں ملک کے دانشوروں، مبلغوں اور انسانیت اور سماج کیلئے ہمدردی رکھنے والے اصحاب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ انہیں حالات کی سنگینی کا احساس ہو اور وہ اس ضمن میں کچھ کرنے پر آمادہ ہوں۔ متعلقہ عالمی اداروں جن میں UNODC سرفہرست ہے، کے محتاط اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال نو ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ افیون، ایک ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ کوکین (جس کی پاکستان میں قیمت بارہ سے اٹھارہ ہزار روپے فی گرام) ہے، ایک ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ ہیروئن، پانچ ہزار ٹن سے زیادہ چرس اور کروڑوں کی تعداد میں نشہ آور انجکشن، گولیاں اور شربت کی بوتلیں تیار کی جاتی ہیں جس کا معتدبہ حصہ ہر سال استعمال ہو جاتا ہے۔ مقدار سے زیادہ اہم ملک یہ ہے کہ یہ ساری منشیات دنیا کے صرف آٹھ ممالک پیدا کرتے ہیں جہاں سے یہ ساری دنیا کو قانونی یا غیرقانونی طور پر سمگل ہو جاتی ہیں۔ ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان اس ضمن میں سرفہرست ہے جو دنیا بھر میں پیدا ہونے والی افیون اور ہیروئن کا نوے فیصد پیدا کرتا ہے۔ کولمبیا دنیا بھر میں پیدا ہونے والی کوکین کا باون فیصد، پیرو پینتیس فیصد اور بولیویا تیرہ فیصد پیدا کرتا ہے، چرس کا پودا بھنگ یوں تو دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ایک خودرو پودے کی طرح اگتا ہے لیکن یہاں بھی افغانستان کو برتری حاصل ہے جس کے بعد مراکش کا نمبر آتا ہے۔ عالمی اداروں کے ایک محتاط اندازے کے مطابق پندرہ سال نے چونسٹھ سال کی عمر تک کے افراد جو کہ نوجوان اور کمانے والوں کا گروپ ہے، کے چار ارب پچپن کروڑ افراد میں سے پینتیس کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی نشے کا شکار ہو چکے ہیں (ان میں شراب اور سگریٹ نوشی کرنے والے شامل نہ ہیں) جو کہ اس گروپ کی کل آبادی کا سات فیصد سنتے ہیں۔ گویا پڑھنے لکھنے اور کمانے والے افراد میں سے سات فیصد افراد ان دونوں کاموں سے معذور ہو چکے ہیں۔ ان پینتیس کروڑ میں سے تریسٹھ فیصد افراد چرس، سترہ فیصد افراد نشہ پیدا کرنے والی قانون طور پر تیار کردہ ادویات غیرقانونی طور پر بہ شکل انجکشن و گولیاں و شربت، تیرہ فیصد افراد افیون اور افیون سے بنی ہوئی منشیات مثلاً ہیروئن اور سات فیصد افراد کوکین استعمال کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا سب سے ہولناک پہلو یہ ہے کہ ان نشے کے عادی افراد میں سے تقریباً دس فیصد یعنی ساڑھے تین کروڑ کے قریب افراد نشہ بذریعہ انجکشن لیتے ہیں اور مزید تحقیق کے مطابق ان میں سے پچاس فیصد کو ہیپاٹائٹس سی، بیس فیصد کو ہیپاٹائٹس بی اور اٹھارہ فیصد کو ایڈز کا مرض لاحق ہو چکا ہے اور یہ وہ بیماریاں ہیں جو مریض کو موت کے موت میں لے جاتی ہیں۔ منشیات اور اسکے اثرات و مضمرات کا ہر سال سروے کرنے والے اداروں کیمطابق منشیات کے استعمال کی وجہ سے دنیا میں ہر سال تین سے چار لاکھ اشخاص کی موت واقع ہوتی ہے۔ عالمی اداروں کے سروے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ اڑسٹھ ارب امریکی ڈالر مالیت کی افیون اور اس سے بنی ہوئی چیزوں مثلاً ہیروئن وغیرہ کی خرید و فروخت ہوتی ہے جس میں اکسٹھ ارب امریکی ڈالر ہیروئن کی خرید و فروخت پر صرف ہوتے ہیں۔ 2010ءمیں افغانستان سے جو ہیروئن چار امریکی ڈالر فی گرام کی قیمت سے خریدی گئی وہ مغربی اور وسطی یورپ پہنچ کر چالیس سے ایک سو امریکی ڈالر فی گرام، ریاست ہائے امریکہ اور شمالی یورپ میں ایک سو ستر سے دو سو امریکی ڈالر اور آسٹریلیا میں دو سو تیس سے تین سو ستر امریکی ڈالر فی گرم تک بکی۔ اسی طرح 2009ءمیں پچاسی ارب امریکی ڈالر کی کوکین خریدی اور بیچی گئی۔ عالمی اور ملکی اداروں کے مطابق پاکستان میں 2011ءکے آخر تک کسی بھی قسم کا نشہ استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً نوے لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہی تعداد پچھلے دنوں نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے ایک مضمون میں بھی بتائی گئی ہے اور انہی تخمینہ جات کے مطابق اس تعداد میں پانچ لاکھ افراد کا ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ان نوے لاکھ افراد میں سے پندرہ لاکھ ہیروئن استعمال کرتے ہیں اور پانچ لاکھ ہیروئن یا کوئی اور نشہ بذریعہ انجکشن لیتے ہیں اور جس طرح کہ مختلف عالمی تخمینہ جات میں بتایا گیاھ ہے بذریعہ انجکشن نشہ کرنے والوں کی نصف (پچاس فیصد) تعداد ہیپاٹائٹس سی، پانچواں حصہ (بیس فیصد) ہیپاٹائٹس بی اور تقریباً پانچواں حصہ (اٹھارہ فیصد) ایڈز کا شکار ہو جاتے ہیں اور کم و بیش یہی صورتحال پاکستان میں بھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ سے زیادہ پاکستانی نشہ باز صرف گندی اور ایک دوسرے کی استعمال شدہ سرنجوں کے ذریعہ نشہ لینے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس سی اور ایڈز کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگر ان نوے لاکھ پاکستانیوں جو نشہ کے عادی ہو چکے ہیں، کا معاشی اور سماجی نقطہ¿ نظر سے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان نوے لاکھ نشہ بازوں میں کم و بیش بیس لاکھن وہ ہیں جن کی عمریں پندرہ سے پچیس سال کے درمیان ہیں۔ گویا یہ پاکستان کا سب سے زیادہ کارآمد نوجوان طبقہ ہے جس سے کسی بھی ملک کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن وہ نشہ کی تباہ کن دلدل میں اتر گئے ہیں۔ انہی نوے لاکھ میں سے اسی لاکھ (متذکرہ بیس لاکھ سمیت) وہ ہیں جن کی عمریں پندرہ سے چونسٹھ سال کے درمیان ہیں۔ گویا یہ پڑھنے پڑھانے اور کام کاج کے قابل لوگ ہیں جو اپنے آپ کو منشیات کے سپرد کر کے ناکارہ اور رفتہ رفتہ ملک کی معاشی اور ساجی سرگرمیوں سے یا تو کٹ چکے ہیں یا کٹتے جا رہے ہیں۔ ان نوے لاکھ میں سے انتہائی محتاط اندازے کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد خواتین ہیں جو معاشرے کے انتہائی غریب یا انتہائی امیر طبقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ اعداد و شمار مزید بتاتے ہیں کہ ان نوے لاکھ نشہ بازوں میں سے چالیس فیصد ناخواندہ جبکہ ساٹھ فیصد خواندہ ہیں۔ بتیس فیصد بے روزگار جبکہ اڑسٹھ فیصد کوئی روزگار رکھتے ہیں۔ یہ المیہ ہی ہے کہ ساٹھ فیصد پڑھے لکھوں اور اڑسٹھ فیصد باروزگار لوگوں نے کفران نعمت کرتے ہوئے تباہی کا یہ راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ لاہور کی صورت حال بھی پاکستان کی مجموعی صورت حال ہی کی عکاسی کرتی ہے۔ مختلف تخمینہ جات کے مطابق لاہور میں نشئیوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جن میں سے پچیس سے تیس ہزار ہیروئن استعمال کرتے ہیں جبکہ پندرہ سے بیس ہزار ہیروئن یا کوئی اور نشہ بذریعہ انجکشن لیتے ہیں اور یوں ہیپاٹائٹس سی اور ایڈز کا شکار یا تو ہو چکے ہیں یا عنقریب ان جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔ ایک مزید اندازے کے مطابق لاہور کی کل آبادی میں سے تین فیصد کام کام کے قابل لوگ نشہ کی علت میں گرفتار ہونے کے سبب یا تو کام کاج کے قابل نہیں رہے یا کام کاج کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یوں معاشی زندگی سے کٹ کر اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب پر معاشی، سماجی، جسمانی اور روحانی بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ”منشیات سے پاک لاہور منصوبہ“ کے تحت حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب مشترکہ طور پر لاہور کو منشیات سے پاک کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس منصوبے کا سیکرٹریٹ اے این ایف کے صوبائی ہیڈکوارٹر 36-C، خالد لین، سرور روڈ لاہور کینٹ میں ایک پروجیکٹ ڈائریکٹر کی زیر سرکردگی قائم ہے جہاں عوامی رابطہ کے لئے ایک ٹال فری نمبر 0800-42424 موجود ہے۔ اگرچہ دونوں حکومتوں کے تمام متعلقہ ادارے اس منصوبے کی کامیابی کیلئے کوشاں ہیں تاہم منصوبے کی کامیابی کیلئے اس میں عام شہریوں کا بھرپور کردار ادا کرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہو گا۔ 

مزیدخبریں