صدر کے دو عہدے کب تک؟

دنیا کے تمام وہ ممالک جہاں صدر کا عہدہ موجود ہوتا ہے وہاں پر صدرکے انتخاب کے حوالے سے بھی طریقہ کار موجود ہوتا ہے اور صدر کی برطرفی اور مواخذے کیلئے بھی کہیں راستے بند نہیں کئے جاتے!
ہر ملک‘ ہر مذہب‘ ہر سوسائٹی حتیٰ کہ ہر گھر میں غیر اخلاقی حرکات کو اس لئے رواج نہیں بخشا جاتا کہ‘ توازن نہ بگڑ جائے۔ ممالک کے دستور میں طریقہ‘ سمجھ یا چیلنجز میں اونچ نیچ آنے سے توازن خراب ہو سکتا ہے لیکن دستور سازی میں کوئی بھی ایسی فضا کی گنجائش نہیں چاہتا۔ کسی بھی مذہب کو اٹھا کر دیکھ لیں‘ وہ مذاہب جواللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں‘ انکے ہاں آسمانی کتابیں یا صحیفے تھے وہ بھی اور جن کے پاس یہ سب کچھ نہیں وہ بھی اخلاقی اقدار کو پس پشت نہیں ڈالتے۔ وہ الگ بات ہے کہ آخر رحمت اللعالمین آئے اور بحیثیت محسن انسانیت محمد مصطفیٰ نے وہ نمونہ پیش کیا جس کو مخالفین نے بھی تسلیم کیا کہ رسول اللہ کی زندگی سب کیلئے بہترین نمونہ ہے۔
آپ آخری نبی ہیں‘ قرآن حکیم دین اسلام کا سب سے بڑا معجزہ اور آخری آسمانی کتاب ہے گویا قرآن و سنت میں وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو کسی بھی قدیم یا جدید ریاست یا معاشرے کو درکار ہے۔ تاہم یہاں بات یہ مقصود ہے کہ اسلام تو ایک عالمگیر مذہب ہے حتیٰ کہ ناقص مذاہب میں بھی غیر اخلاقی افعال و اقوال سے اجتناب برتا گیا ہے۔
یہاں دو تین دن سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ خواص و عوام میں بہت زیادہ زیر بحث ہے۔ اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ جو کالا باغ ڈیم سے متعلق آیا‘ اس پر بھی بہت زیادہ بحث کے بے شمار دریچے کھلے ہوئے ہیں۔ عدالتوں کا معاملہ یہ ہے کہ انکے سامنے جو کیس اور جو نیچے سے تفتیش آتی ہے‘ وہ اس پر فیصلہ دینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ عدالتیں نہ تو بلاوجہ کیس سننے سے انکار کر سکتی ہیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ وہ جب کیس سنیں تو اس پر فیصلہ دینے سے انکار کر دیں۔
 اس حکومت پر 2008ءکے قیام سے لے اب تک کئی ”مقدمات“ بنے اور صدر‘ وزیراعظم و دیگر ذمہ داران کو عدالتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس حکومت نے عدالتوں کا جو احترام کیا وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اعلیٰ عدالتیں بے شمار حکومتی کیسوں میں اور حکومت عدالتوں میں الجھی رہی۔ ان معاملات سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کا کوئی اچھا امیج سامنے نہیں آیا.... مگر ع
کوئی یار جان سے گزرا‘ کوئی ہوش سے نہ گزرا
بہرحال تازہ ترین فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے صدر کے دو عہدوں کے تناظر میں کہا ہے کہ عدالت نے صدر کے ایک عہدہ چھوڑنے سے متعلق واضح کر دیا تھا کہ اس پر عمل ضروری ہے۔ تاہم عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ آرٹیکل 248 (ٹو) کا حق کلیم کرنا پڑتا ہے۔
راقم قانون شناس نہیں تاہم عام فہم و فراست کے مطابق معلوم یہی ہوتا ہے کہ 248 (ٹو) صدر کے عہدے کو ”محفوظ“ رکھ رہی ہے:
"No criminal proceedings whatsoever shall be instituted or continued against the president or a governor in any court during his term of office" Article: 248 (11)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام بھی اور خاص بھی اٹھتا ہے اور کیس عدالت میں لے جاتا ہے۔ عدالت کو سب کچھ سننا اور کرنا پڑتا ہے پھر بات دور تک پہنچ جاتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں بھرپور فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہو جاتی ہیں۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اس دفعہ سب روایات بدل گئی ہیں کیونکہ جرنیل اور کور کمانڈر جمہوریت بچانے کے چکر میں ہیں اور انہوں نے مخصوص سیاستدانوں کو گھاس نہیں ڈالی‘ یہی وجہ ہے کہ جیسے تیسے بھی حکومت مدت پوری کرنے کے در پے ہے اور الیکشن سرپر ہیں۔
نیوٹرل عبوری حکومت اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے دروازے بھی پوری طرح کھل چکے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ عدالتیں آزاد اور عدل پسند ہیں‘ یہاں آج کوئی ”نظریہ ضرورت“ کو فروغ دینے والا کسی کو میسر نہیں ہے۔ جہاں بہت خامیاں روز روشن کی طرح واضح ہیں وہاں کچھ اعلیٰ روایات اور انصاف پسندی بھی جڑیں پکڑ رہی ہے۔
سیاسی منظرنامہ پر غور کریں تو”رسما“ ن لیگ کچھ عرصہ سے اپوزیشن بننے لگی ہے۔ ورنہ ن لیگ 60 فیصد پاکستان یعنی پنجاب میں خود حکمران ہے اور مرکز میں اس کا آغاز مفاہمت کے سلسلہ سے ہوا تھا۔ اپوزیشن کا کردار سابق قائد حزب اختلاف فضل الرحمن نے بھی نہیں نبھایا۔ البتہ پارلیمنٹ کے باہر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف بطور اپوزیشن کام کرتی رہیں۔
پارلیمنٹ کے ”اندر“ والوں نے محض عدالتوں کے سہارے لئے۔ گویا سیاستدانوں نے سیاسی میدان میں کم اور عدالتی میدان میں ان ڈائریکٹ کھیلا اور بہت زیادہ کھیلا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر جانبدارانہ سوچ‘ حب الوطنی کے فکر اور خندہ پیشانی کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ سب لوگ جو عدلیہ کے احترام کی بات کرتے ہیں‘ وہ عدلیہ کے فیصلوں پر غور بھی کریں۔
 اول جو کالا باغ ڈیم کے قیام کو عدلیہ نے ضروری قرار دیا ہے وہ سبھی سیاسی جماعتوں کیلئے ا ایک قابل غور چیز ہے۔ ان کیلئے بھی جو اس وقت تخت و تاج کے مالک ہیں اور ان کیلئے بھی جو آنیوالے کل کے حکمران ہوں گے۔ اس فیصلے کا تعلق صرف آج کی حکومت سے نہیں ماضی‘ حال اور مستقبل سے بھی ہے۔
 دوم‘ صدر مملکت آصف علی زرداری کا اخلاقی فرض ہے کہ آرٹیکل 248 (ٹو) ہی پر اکتفا نہ کریں بلکہ اسلامی اقدار اور قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ آباءکی اعلیٰ روایات کو بھی مدنظر رکھیں۔
 سوم‘ زرداری مخالفین بھی اپنے سیاسی دم خم کا بھی مظاہرہ کریں اورسپورٹس مین سوچ اور سپرٹ سے جمہوریت کی راہ ہموار کریں اگر آپ میں دم خم ہے‘ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت غیر جانبدار ہوئے اور موجودہ بیدار عدلیہ بھی ہے تو پھر زیادہ سے زیادہ آصف علی زرداری کیا کر لیں گے؟
 چہارم حکومت کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے چہ جائیکہ وہ پھنسی ہوئی ہے لیکن اس نے اصغر خان کیس کو زیادہ اچھالا ہے نہ گھمایا ہے‘ بہت سی ناکام پالیسیوں کے باوجود اور بے شمار یوٹرن لینے والی حکومت کا مقابلہ اب آنیوالے الیکشن میں کیا جائے‘ عدالتوں اور فوج کی جانب دیکھنے کی اب زیادہ ضرورت نہیں ہے۔
عقلمندوں کیلئے بہرحال عدالتوں کے اشارے بھی کافی ہوتے ہیں فیصلے تو دور کی بات۔ بات کتنی لمبی رہ گئی ہے‘ آخر ایک ہی عہدہ رہ جانا ہے یہ صدارت کا کھیل رہ ہی کتنا گیا ہے؟
 سیاسی طور پر برطرفی اور مواخذہ اگر ممکن نہیں ہوا تو پھر فطری اختتام میں دن ہی کتنے ہیں؟ آہ! درج ذیل شعر کا پہلا مصرع حکومت کی نذر اور دوسرا اپوزیشن کی خدمت میں حاضر ہے کہ ....
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن