اسلام آباد (ثناءنیوز+ اے پی اے) ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کہا ہے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ رواں ماہ حکومت کو پیش کر دی جائے گی جس میں ذمہ داروں کو سزا دینے سمیت 200 سفارشات کی گئی ہیں۔ رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد حکومت کی صوابدید پر ہو گا کہ وہ اسے منظر عام پر لاتی ہے یا نہیں۔ رپورٹ محفوظ ہاتھوں میں ہے اس کے ظاہر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا رپورٹ کا ایک لفظ بھی باہر گیا نہ جا سکتا ہے۔ شکیل آفریدی کی حقیقت منظر عام پر لائی گئی باتوں کے برعکس ہے جبکہ آمنہ نامی کسی ڈاکٹر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ رپورٹ میں ایبٹ آباد واقعہ میں شامل افراد کا تعین واضح طور پر کیا ہے۔ علاوہ ازیں اے پی اے کے مطابق ایبٹ آباد کمشن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے شکیل آفریدی کو مخبری کے دس ہزار ڈالر ملے، رابطے کے لئے سپیشل ڈیوائس تیار ہوئی۔ ہیپاٹائٹس ٹیسٹ کے بہانے اسامہ کے بچوں کے سیمپل امریکا بھجوائے گئے۔ اہلیہ کی وائس میچنگ بھی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی آخری وقت تک اس بات سے لاعلم تھے ایبٹ آباد کمپاونڈ میں جن افراد کی ڈی این اے سیمپلنگ انہیں کرنی ہے وہ کوئی اور نہیں اسامہ کے بچے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سی آئی اے کے لوگوں کے ساتھ پہلی ملاقات پشاورمیں ایک بین الاقوامی این جی او کے دفتر میں ہوئی۔ تین سے چار ملاقاتوں میں اس نے ایبٹ آباد کے اس علاقے میں جہاں اسامہ کا کمپاﺅنڈ موجود تھا، ہیپاٹائٹس کے خلاف مہم چلانے کی حامی بھر لی۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اس علاقے میں تین بار ہیپاٹائٹس کے خلاف کمپین چلائی مگر اسامہ کے بچوں کو قطرے پلا سکے نہ اس کی آڑ میں سمپلنگ ہو سکی جس کے بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایک لیڈی ہیلتھ وزیٹر کو تیس ہزار روپے انعام کا لالچ دیا اور کہا اگر اس کمپاﺅنڈ میں رہنے والے بچوں کی سمپلنگ نہ ہو سکی تو ہمارا پروگرام بند ہو جائے گا۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹر نے اسامہ کے ساتھ رہائش پذیر خالد الکویتی کے ساتھ تعلقات استوار کئے اور اس کے ذریعے ڈی این اے سیمپل حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ خالد الکویتی نے اس شرط پر کہ وہ گھر میں داخل نہیں ہو گی بچوں کو باہر بلا کر ویکسین پلانے کی اجازت دے دی اور لیڈی ہیلتھ وزیٹر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ یہ سیمپل کنفرمیشن کیلئے امریکہ بجھوائے گئے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شکیل آفریدی کے پاس ایک سی آئی اے کی دی ہوئی ایک ڈیوائس تھی جس پر اسلام آباد سے سی آئی اے کی ایک خاتون اہلکار ان کے ساتھ رابطہ کرتی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے شکیل آفریدی کو اسلام آباد بلایا جاتا تھا۔ اس دوران ایک بڑی گاڑی میں سی آئی اے کی ایک لیڈی ایجنٹ لیٹ کر سفر کرتی تھی تاکہ گاڑی بظاہر خالی محسوس ہو۔ ایجنسیوں کے پیچھا کرنے کا خدشہ دور ہونے پر شکیل آفریدی کو اس گاڑی میں سوار کرایا جاتا اور وہ بھی اس گاڑی میں لیٹ کر سفر کرتے جنہیں ہدایات دینے کے بعد گاڑی سے اتار دیا جاتا۔ اسامہ کے کمپاونڈ کی مکمل معلومات بھی سی آئی اے کو ڈاکٹر شکیل کو دی گئی۔ ڈیوائس کے ذریعے حاصل ہوئیں، رپورٹ کے مطابق ڈی این اے کی کنفرمیشن پر شکیل آفریدی کو ہدایت ملی وہ تین روز میں اپنا پراجیکٹ وائنڈاپ کر دیں، اپنی جائیداد کا انتظام کریں اور امریکہ شفٹ ہو جائیں۔ آپریشن کے دن تک سی آئی اے ڈاکٹر شکیل کو پاکستان چھوڑنے کا کہتی رہی انہیں بگرام کے راستے افغانستان لے جانے کی پیشکش بھی کی گئی لیکن وہ لیت لعل سے کام لیتے رہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سی آئی نے اس کام کے عوض دس ہزار ڈالر دئیے۔
ایبٹ آباد رپورٹ محفوظ ہے، رواں ماہ حکومت کو دینگے: جسٹس (ر) جاوید اقبال
Dec 09, 2012