فرینڈلی اپوزیشن الزام یا اعزاز؟

Dec 09, 2013

ناصر آغا

اپوزیشن کے فرسودہ تصّور کی وضاحت کیلئے ایک لطیفہ کا سہارا لیے بغیر بَن نہیں پڑ رہی جو یوں ہے کہ ایک شوہر نامدار کسی طور بھی اپنی وفا شعار اہلیہ کی کسی بھی خوبی یا خدمت کی تعریف کرنا تو درکنار تسلیم کرنا بھی بیوی کو سرچڑھانا اور بگاڑنا سمجھتے تھے بلکہ ہر بات کو رد کرنا اور اسکی خوبی کو بھی بُرائی کرپشن کرنا ہی ان کا بطور شوہر اصل فریضہ تھا مثلاً ان کی بیوی نے اُس کیلئے ناشتے میں انڈے کا آملیٹ تیار کیا ہے تو یہ صاحب ناراض ہوکر کہتے ہیں میں نے تو آج فرائی انڈا کھانا تھا دوسرے روز ان کی بیوی نے فرائی انڈا پیش کردیا تو بھی غصے میں آکر بولے میرا موڈ تو آملیٹ کا تھا پھر جب اگلے روز بے چاری نے دونوں طرح کے انڈے ایک آملیٹ تو دوسرا فرائی کردیا اب تو ان کے غصے کا ٹھکانہ نہ رہا طیش میں آکر کہنے لگے عقل کی اندھی تم کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتی میں نے جونسا انڈا فرائی کھانا تھا اُسے آملیٹ کر لائی ہو اور جونسا آملیٹ اسے فرائی کر لائی ہو، کچھ اسی طرح ہر اچھے بُرے کام میں کیڑے نکالنے کا وطیرہ اپوزیشن کا فرض عین سمجھ لیا گیا۔اس طرز عمل کو اُسی نظریاتی یلغار نے جنم دیا جو ہماری بہت سی اعلیٰ اقدار و روایات کچلنے کیلئے سرگرم عمل ہے اس کی ذمہ دار ثنا خوانِ مشرق کی غفلت و بے اعتنائی بھی ہے۔تنقید برائے تنقید اپوزیشن کا فرض بنادینا اس کیلئے عوامی ذہن سازی اس طرح کردینا کہ جونہی اپوزیشن حکومت کے کسی اچھے کام کی بھی تعریف کرے فوراً اسے ٹک ٹکا اور بک جانے کے الزام لگادینا گویا اپوزیشن کا کام ہی حکومت کو ناکام کرنا اس کے خاتمہ کیلئے کام کرنا اُسے چلنے نہ دینا ہے جبکہ تنقید اپنے اصل معانی و مفہوم و یہ نہیں جو معانی اس کو پہنادئیے گئے ہیں۔ایک صحت مند تنقید تقویت و توانائی کیلئے ہوتی ہے جیسے ایک معمار دوران تعمیر اینٹ کو ٹھونک کر آگے پیچھے کرکے دیوار کی خوبصورت و طاقت میں اضافہ کرتا ہے اسی طرح ایک بہترین نقاد اچھے اور بُرے دونوں پہلوﺅں کا جائزہ لیکر حسن و قبیح خوبیوں اور خامیوں دونوں پہلوﺅں کا جائزہ پیش کرتا ہے اور خوبیوں کو داد تحسین خامیوں کی نشاندہی بلکہ اس سے بڑھ کر ان کو دور کرنے کی کوشش اور اصلاح و تجاویز پیش کرتا ہے۔مخلص ہونے کی صورت میں اسے کامیابیوں پر خوشی اور ناکامیوں پر دلی تکلیف ہورہی ہوتی ہے جس کا وہ اظہار کرتا ہے۔ یہ خوش آئند و حوصلہ افزا تبدیلی ہمارے عوام اور رہنماﺅں میں آنا شروع ہوگئی ہے کہ ہم نے اپنی خطاﺅں سے سبق سیکھنا شروع کردیا ہے کئی اچھی اور صحت مند روایات لوٹ آنا شروع ہوئیں۔ بہت سے مواقع پر ہمارے سیاستدانوں اور دیگر رہنماﺅں نے بالغ نظری و فراخدلی سپورٹس مین سپرٹ کے مظاہرے دکھائے جنکا پہلا اور عملی مظاہرہ سابقہ دور حکومت میں مسلم لیگی(ن) کی اپوزیشن نے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سر پر لے کر حکومت کو ٹف ٹائم بھی دیا اور پانچ سال جو کہ جمہوری حکومت کا استحقاق تھا اسے پورے کرائے حالانکہ کئی مواقع پر حکومت کو چھٹی کرائی جاسکتی تھی۔ خود حکومت نے بھی عدلیہ کی بہت سی نافرمانیوں اس کے ساتھ تضحیک آمیز رویوں کے باوجود بہت سی اچھی مثالیں بھی پیش کیں۔ یہ قابل تردید حقیقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کا فیصلہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں وہی حزب اقتدار، حزب اختلاف کا اپنا اپنا مینڈیٹ دیکر فیصلہ سناتے ہیں۔ یہ نتائج ان کے جذبات کے ترجمان ہوتے ہیں جنہیں حق حکمرانی عطا کیاجاتا ہے انہیں حکومت کے ذریعہ اور جنہیںاپوزیشن کا کردار سونپا جاتا ہے انہیں محاسبے اور تنقید کے ذریعے حکومت کو شفاف اور اعتدال پہ رکھنا ہوتا ہے ان کا یہی فریضہ عوام کی خدمت ہوتی ہے نہ کہ اچھے کام بھی نہ کرنے دینا ہر وقت مایوسی اور ناکامی کی فضا بنا کر حکومت کی توجہ ترقی و کارکردگی کی بجائے اپنے اوپر لگائے رکھنا محلاتی سازشوں میں معاون بن کر جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کی توہین کرنا۔اپوزیشن کا دشمن کی بجائے دوست بن کر صحت مند اختلاف رائے سے مسائل حل کرائے جائیں نہ کہ کشیدگی اور ٹانگیں کھینچ کر وقت ضائع کرایاجائے۔

مزیدخبریں