گھر کے بھیدی نے کیا لنکا ڈھائی ؟

 مائی جنداں کی حویلی ٹپک رہی تھی۔ مائی جنداں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی چہیتی بیوی تھی اور اب لاہور قلعہ میں جہانگیری احاطہ کے بائیں جانب یہ حویلی موجود ہے۔ جہانگیری احاطہ کے دائیں جانب ”آثار قدیمہ“ کے اعلیٰ افسران اپنی پوری سرکاری شان و شوکت کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ ایک دن ایک فون سزا یافتہ OSD کو آیا کہ مائی جنداں کی حویلی ٹپکتی رہی تو رنجیت سنگھ کے دربار میں لگی قیمتی پینٹنگ بھی خراب ہو جائے گی۔ ان شخصیت نے حویلی کی چھت کا معائنہ کرنے کے لئے سیڑھی طلب کی .... ڈائریکٹر نے کہا .... آپ درخواست فائل پر لکھ کر بھجوا دیں .... گھر کا بھیدی اگلا احوال جانتا تھا لہذا ایک رات کو قلعہ کی چھت پر چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا کہ ایک احاطے میں کئی قسم کی سیڑھیاں پڑی ہوئی ہیں تو انہوں نے ایک سیڑھی اٹھائی اور اپنے ایک انجنیئر یوسف ہارون کے ساتھ مائی جنداں کی حویلی کی چھت پر پہنچ گئے اسی وقت تھوڑا سا سیمنٹ لیا‘ پڈلو پا¶ڈر ملایا اور درزوں کو بھر کے دس منٹ میں نیچے اتر آئے دس دن کے بعد ایک فائل واپس کی گئی جس پر لکھا ہوا تھا ”ہم معذرت خواہ ہیں ہمیں سیڑھی نہیں مل سکی براہ کرم آپ سیڑھی کرائے پر حاصل کر لیں“ اگلے روز سیکرٹری وزارت سیاحت خواجہ شاہد حسن کا فون آیا۔ مائی جنداں کی حویلی کے کام کا کیا ہوا ؟ انہوں نے جواب دیا ”اس کی مرمت ہو چکی ہے اور اب چھت نہیں ٹپکتی“ اگلا سوال تھا کہ کتنے پیسے خرچ ہوئے ؟ انہوں نے جواب دیا کوئی پیسے خرچ نہیں ہوئے۔ سیکرٹری وزارت سیاحت و ثقافت نے جواب دیا۔حیرت ہے میرے سامنے محکمہ آثار قدیمہ کی فائل پڑی ہے۔ انہوں نے اس کام کے 25 لاکھ روپے مانگے ہیں“ گھر کے بھیدی نے اس واقعہ کے بعد لکھا ہے:
”میں اکثر سوچتا ہوں حکومت پاکستان تو ایک ادارہ ہے پاکستان کا سب سے اہم اور سب بڑا ادارہ۔ اس ادارے کے بہت سے محکمے ہیں جو اس کے ستون ہیں جن کی بنیاد پر پوری حکومت کھڑی ہے۔ پی آئی اے ‘ ریلوے‘ سٹیل مل ‘ تعلیم اور صحت کیا ان سب محکموں کا بھی یہی حال ہے ؟ ادارہ حکومت پاکستان اسی طرح کام کر رہا ہے ؟“
اس سوال کے جواب میں ہمارا جواب یہی تھا کہ جی ہاں .... اسی طرح کام ہو رہا ہے اور اس طرح کام نہ ہوتا تو ملک کی یہ حالت نہ ہوتی جو آج دکھائی دے رہی ہے .... مگر بدقسمتی سے ہر محکمے کے اندر کوئی ایسا بھیدی نہیں تھا کہ جو عکسی مفتی ہوتا.... عکسی مفتی کی کتاب کا نام ”کاغذ کا گھوڑا“ ہے۔ ہم نے لکڑی کی کاٹھی اور کاٹھی پر لکڑی کے گھوڑے کا تو سنا تھا کہ جس کی دم پر ہتھوڑا ماریں تو وہ دوڑ پڑتا تھا مگر اس کاغذ کے گھوڑے کی تب سمجھ آئی کہ جب عکسی مفتی کے بیک ٹائٹل پر لکھی ہوئی تحریر کو پڑھا ”اس کتاب میں افسر شاہی یعنی Bureaucracy کے طور طریقے اور حکومت پاکستان کی حکمت عملی پر دل کھول کر تنقید کی گئی ہے“ ہمارا دل بہت خوش ہوا کہ شاید حکومت پاکستان اپنی حکمت عملی درست کرنے کے طریقے اس کتاب سے سیکھ لے ‘ پھر خیال آیا کہ عکسی مفتی زیر عتاب بھی آ سکتے ہیں کہ تم کون ہوتے ہو حکومت پاکستان کو طور طریقے سکھانے والے مگر عکسی مفتی بھی نہایت ذہین آدمی ہیں اس لئے تھوڑا آگے چل کر لکھتے ہیں ”لیکن اس تنقید میں نفرت کا پہلو ہرگز نہیں۔ بلکہ اپنائیت ہے۔ اپنا سمجھ کر بات کی گئی ہے“ آج ہمیں اس رویہ کی اور بھی ضرورت ہے کہ پاکستان اور حکومت پاکستان کو محض تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اپنا سمجھ کر بات کی جائے۔ عکسی مفتی نے اس اپنائیت میں بہت سارے لڈو¶ں میں ڈسپرین کی کڑوی گولیاں ملا دی ہیں تاکہ سچ کی تلخی بدمزہ بھی نہ کرے اور سچ پوری طرح سے آشکار بھی ہو جائے۔ عکسی مفتی نے ضیاءالحق کے دور کا دلچسپ واقعہ بھی لکھا ہے کہ جب غلام علی کو ہندوستان جانے کی اجازت تو دے دی مگر وہاں جا کر گانے سے روکا گیا تو عکسی مفتی نے انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ ہندوستان جا¶ اور پہلی موسیقی کی محفل پاکستانی سفارتکار کے گھر پر کر لینا اور پھر جہاں چاہو گاتے رہو۔ عکسی مفتی لکھتے ہیں کہ بالکل ایسا ہی ہوا۔ پاکستان کے سفیر نے اپنی نجی محفل میں ریڈیو‘ ٹی وی اور پریس کو مدعو کیا۔ غلام علی پر اداریے‘ کالم اور تقاریر چھپ گئیں اور اگلے ہفتے پاکستانی سفیر کی مکمل رپورٹ وزارت امور خارجہ اور وزارت ثقافت کے پاس سفیر صاحب کی شاندار کارکردگی کے طور پر بھیج دی گئی.... ہاں بات مائی جنداں کی حویلی کی چھت ٹپکنے سے شروع ہوئی تھی مگر چھت ٹپکنے کا ایک اور واقعہ "paper tiger" یعنی کتاب کے نام سے لکھے گئے باب میں بھی ہے۔ جس میں عکسی مفتی نے اپنے ایک سکاٹ لینڈ سے آئے ہوئے دوست کے ذکر سے آغاز کیا۔ جو اس بات پر حیران تھاکہ ساتھ کے کمروں میں بیٹھے ہوئے افسر ایک دوسرے کو چھٹیاں لکھتے رہتے ہیں اور گھنٹی بجا بجا کر چپڑاسی کے ہاتھ کاغذ بھیجتے رہتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں تو افسر اٹھتا ہے دروازہ کھولتا ہے اور بات کرتا ہے اور بس ....اس سے آگے چل کر عکسی مفتی نے لکھا کہ انہیں بلوچستان کے علاقہ خاران میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ بلوچستان کا وہ مغربی علاقہ ہے جس کا بارڈر ایران کے ساتھ لگتا ہے۔ وہاں موٹر سائیکل ہی موٹر سائیکل تھے لیکن ایک پر بھی نمبر پلیٹ نہیں تھی۔ عکسی مفتی نے ڈی سی او سے پوچھا تو وہ بولا رجسٹریشن آفس میرے گھر کے قریب ہی ہے لیکن یہ موٹر سائیکل ایران سے لائے گئے ہیں۔ نوکر شاہی کی فائلوں میں ان کا ذکر ہی نہیں مگر وہ پورے بلوچستان میں چلتے ہیں۔ اسی طرح جدید ماڈل کی ایسی گاڑیاں دندناتی پھرتی ہیں کہ جن کا افسر شاہی کے کاغذوں میں ذکر ہی نہیں ہے۔ عکسی مفتی نے آگے چل کر لکھا ہے کہ وزارت ثقافت کی فائل پر تحریر ہے کہ کوئی غیر ملکی محقق یا غیر ملکی فلم کمپنی پاکستان کی اجازت کے بغیر اور NOC حاصل کئے بغیر ملک کے کسی علاقے میں فلم نہیں بنا سکتی اور عکسی مفتی وزارت کو لکھ چکے ہیں کہ بی بی سی چینل 4 نے پاکستان کیخلاف فلمیں بنائیں اور نشر کیں۔ ”اسلامک بم“ سے لے کر ''Dancing girls of Lahore'' کی بھی شوٹنگ پاکستان بھر میں اور دوسری اندرون شہر اور بادشاہی مسجد میں کی گئی اور یہ تمام فلمیں پاکستان کو اسلام کو بدنام کرنے کے لئے بنائی گئیں.... مگر افسر شاہی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی .... عکسی مفتی کی کتاب ”کاغذ کا گھوڑا“ میں اتنے کاغذ کے گھوڑے ہیں کہ مجھے خوف آنے لگا اور ہر طرف کاغذ کے گھوڑے ہی گھوڑے دکھائی دینے لگے۔ کروڑوں کا غبن ہوتا ہے اور کاغذ بے داغ رہتے ہیں۔CDA کے نئے سیکٹرز کے اعلان کے ساتھ سیوریج اور پائپ لائن کا کام کاغذوں میں ہو جاتا ہے مگر جب گھروں کی تعمیر شروع ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کام تو سرے سے شروع ہی نہیں کیا گیا۔ عکسی مفتی نے لکھا کہ ایک دن وزارت سائنس میں بیٹھا تھا کہ ایک ایماندار ایڈیشنل سیکرٹری قمر الدین صدیقی پریشان حال دکھائی دئیے۔ وجہ پوچھنے پر کہنے لگے کہ اس دفتر میں کتنے ہی فراش‘ چپڑاسی اور ایل ڈی سی رہے ہیں کہ جن کی کاغذوں میں تنخوائیں جاتی ہیں مگر حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں .... میں نے عکسی مفتی کی کتاب ”کاغذ کا گھوڑا“ بند کر کے رکھ دی .... اور ڈاکٹر مجید نظامی کاکہا ہوا ایک جملہ یاد آ گیا کہ ہمیں اپنے گھوڑے ہر وقت تیار رکھنے چاہئیں مگر یہ گھوڑے کاغذ کے نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ مائی جنداں کی حویلی کی طرح ملک کے اندر بہت ساری ایسی چھتیں ہیں کہ جو ٹپک رہی ہیں اور جنہیں معمولی کاوش اور کم پیسہ لگا کر درست کیا جا سکتا ہے۔ کتاب ”کاغذ کا گھوڑا“ میں بیوروکریسی کے کردار پر ایک بیوروکریٹ نے گھر کا بھیدی بن کر لنکا ڈھا دی ہے۔ مگر حکمران اور حکومت کب اپنا کردار ادا کریں گے ؟
اپنا خیال رکھیئے گا۔

ای پیپر دی نیشن