اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نامہ نگار) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی ، ایم کیو ایم کے رہنما اقبال محمد علی، جماعت اسلامی کے رہنما صاحبزادہ طارق اللہ اور عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد نے عوام پر40ارب روپے نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور پی آئی اے کی نج کاری کو مسترد کر دیا، اپوزیشن کسی صورت میں پی آئی اے کی نجکاری اور نئے ٹیکسوں کا نفاذ قبول نہیں کرے گی غیر آئینی اقدامات کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی جائے گی انہوں نے یہ بات پارلیمنٹ ہائوس کے باہر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا حکومت پی آئی اے کو گومگو کی کیفیت سے فوری طور پر نکالے، 40ارب کے ٹیکسز کے حوالے سے حکومت غلط بیانی کر رہی ہے، حکومت پی آئی اے کی نجکاری کر رہی ہے لیکن اس کا اعتراف نہیں کر رہی، پی آئی اے کی نج کاری اور 40ارب کے ٹیکسز کے حوالے سے اپوزیشن حکومت کی بریفنگ سننے کیلئے تیار ہے ، متعلقہ وزیر پی آئی اے کی نجکاری نہ کرنے کی ذمہ داری لے تو اصلاحات کیلئے اس کے ساتھ تعاون کیا جا سکتا ہے، معاشی سال مکمل ہونے میں چھ ماہ باقی ہیں، حکومت کی ناقص حکمت عملی اور معاشی پالیسیاں رنگ لے آئیں اور منی بجٹ پیش کر دیا، حکومت کے بجٹ میں پیش کئے گئے آمدن اور اخراجات کا تخمینہ غیر حقیقت پسندانہ تھا، این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ریلیف دینے کادعویٰ صحیح ہے تو حکومت سندھ کو 20ارب اور خیبر پی کے کو 10ارب فوری ادا کرے، محصولات کے ٹارگٹ پورا نہ کرنے والے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لے کر حکومت اپنی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف کر چکی ہے،صرف پارلیمنٹ کی ٹیکسز کو بڑھانے یا کم کرنے کا اختیار رکھتی ہے، حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کو نظر انداز کیا گیا سید خورشید شاہ نے کہا کہ اسمبلی کے اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے اور 40ارب کے نئے ٹیکسز کے حوالے سے بات کی گئی ہے، حکومت نے کہا ہے پی آئی اے کی نجکاری نہیں کر رہی بلکہ اس کیلئے اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے پی آئی اے کی نجکاری اور40 ارب کے نئے ٹیکسز کے نفاز کی مذمت کی اور کہا منی بجٹ پیش کرکے پارلیمنٹ، عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مسلسل گر رہی ہیں لیکن پاکستان میں تیل کی قیمتیں جوں کی توں برقرار ہیںایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر اقبال محمد علی نے کہا وزیراعظم نے جب حلف اٹھایا تھا تو اس وقت پی آئی اے اور سٹیل ملز کے حوالے سے پالیسی بنانی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے اور سٹیل ملز کے ملازمین کے تمام مطالبات مانے جائیں اور پی آئی اے کی نجکاری کو ایم کیو ایم نہیں مانے گی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا اسحاق ڈار ایک ناکام وزیر ہیں ان کی پالیسیاں ناکام ہو گئی ہیں، پی آئی اے کی نجکاری کر کے اوورسیز پاکستانیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ پرائیویٹ کمپنیوں کے مہنگے ٹکٹ خریدیں۔ قبل ازیں نامہ نگار کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا حکومت بلیاں اٹھانے والوں پر ٹیکس لگا رہی ہے، بڑی بڑی گاڑیوں رکھنے والوں پر بھی ٹیکس لگائے ، حکومت سالانہ پٹرولیم مصنوعات پر 650ارب ٹیکس وصول کر رہی ہے،ڈیزل پر 50فیصد ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، اس سے دل نہیں بھرا تو 40ارب کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں،حکومت پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے نئے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے ، طرح طرح کے ٹیکسوں کے باوجود بھی حدف حاصل نہیں ہونگے تو پھر کیا کرینگے،حکومت کی جانب سے کھربوں روپے کے ٹیکس وصول کئے جا رہے ہیں لیکن صوبوں کا حصہ نہیں دیا جا رہا ، حکومت کے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں بیرونی قر ضے 16ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر 20ٹریلین ڈالر ہو گئے ہیں،سر ی لنکا نے 4.5فیصد اور کھٹمنڈو نے 5.25فیصد انٹرسٹ پر یورو بانڈ بیچے ۔ہمارے وزیر خزانہ 8.5فیصد انٹرسٹ پر یورو بانڈ بیچ کر بہت خوش ہو رہے ہیں،حکومت عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے آگے نہ جھکے ،بلکہ آئے ہمارے ساتھ بیٹھے ہم سب مل کر تمام مشکلات کا حل نکالیں ،ہم بھوکے رہ لیں گے مگر کسی کے غلام نہیں بنیں گے، حکومت کہتی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری نہیں کر رہے بلکہ اسکو مضبوظ بنا رہے ہیں ۔اگر ایسا ہے تو رات کی تاریکی میں آرڈیننس کیوں نکالا گیا، حکومت ہمیں یہ لولی پاپ نہ دے ہم اسکو نہیں مانتے ،ابھی پی آئی اے کی نجکاری کا وقت نہیں آیا، حکومت پی ٹی سی ایل کی نجکاری سے سبق سیکھے کہ کس طرح اسکو بر باد کیا گیا۔پی ٹی سی ایل 80ارب کا منافع دیتا تھا،کس طرح اسکی نجکاری کر کے اسکو برباد کیا گیا۔اور آج یہ ادارہ ڈیڑھ ارب منافع بھی نہیں دے رہا۔ حکومت چالیس ارب کے نئے ٹیکسوں اور پی آئی اے کے حوالے سے جاری آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں لائے اس پر بحث ہو۔ اگر ہم نے مخالفت کی بھی تو حکومت کے پاس اکثریت حاصل ہے وہ ان دونوں کو پارلیمنٹ سے باآسانی پاس کروا سکتی ہے،اور اس سے دنیا میں ایک اچھا سائن جائے گا کہ پاکستان میں پارلیمنٹ سپریم اور قانون کی حکمرانی ہے، انہوں نے کہا حکومت بلیا ں اٹھانے والوں پر ٹیکس لگا رہی ہے ،بڑی گاڑیوں رکھنے والوں پر بھی ٹیکس لگائے ، سالانہ پٹرولیم مصنوعات پر 650ارب ٹیکس وصول کیا جارہاہے،ڈیزل پر 50فیصد ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، اس سے دل نہیں بھرا تو 40ارب کے نئے ٹیکس لگا دئے گے،حکومت پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے ،نئے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے ، طرح طرح کے ٹیکسوں کے باوجود حدف حاصل نہیں ہونگے تو پھر کیا کرینگے، صوبوں کا حصہ نہیں دیا جا رہا ، حکومت کے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں بیرونی قر ضے 16ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر 20ٹریلین ڈالر ہو گئے ہیں،سر ی لنکا نے 4.5فیصد اور کھٹمنڈو نے 5.25فیصد انٹرسٹ پر یورو بانڈ بیچے،ہمارے وزیر خزانہ 8.5فیصد انٹرسٹ پر یورو بانڈ بیچ کر بہت خوش ہو رہے ہیں،آج قائد اعظم اورشہید بھٹو جیسے لیڈر کی ضرورت ہے، بھوکے رہ لیں گے مگر کسی کے غلام نہیں بنیں گے،حکومت کہتی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری نہیں کر رہے بلکہ اسکو مضبوظ بنا رہے ہیں،اگر ایسا ہے تو رات کی تاریکی میں آرڈیننس کیوں نکالا گیا، حکومت ہمیں یہ لولی پاپ نہ دے ،ہم اسکو نہیں مانتے ،ابھی پی آئی اے کی نجکاری کا وقت نہیں آیا، حکومت پی ٹی سی ایل کی نجکاری سے سبق سیکھے کہ کس طرح اسکو بر باد کیا گیا، حکومت چالیس ارب کے نئے ٹیکسوں اور پی آئی اے کے حوالے سے جاری آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں لائے اس پر بحث ہو، اگر ہم نے مخالفت کی بھی تو حکومت کے پاس اکثریت حاصل ہے وہ ان دونوں بلزکو پارلیمنٹ سے باآسانی پاس کروا سکتی ہے۔ خورشید شاہ نے کہا اب لوگوں کو لولی پاپ نہیں دیا جا سکتا حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے آج وفاق میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ حکومت وفاق کومضبوط کرے۔ انہوں نے کہا صوبوں کے درمیان غلط فہمیاں پدیا ہو گئی ہیں آپ لیڈر بنیں، حکمران نہ بنیں۔ حکومت وفاق کو مضبوط کرے، آئینگ اور قانون کے تحت چلے، بیورو کریٹس کے ساتھ مل کر ٹیکس نہ لگائیں، پارلیمنٹ میں آ کر بات کریں، کھربوں روپے کے ٹیکس وصول کئے جا رہے ہیں، صوبوں کا حصہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کہتے تھے کہ امانت میں خیانت نہیں کروں گا تو اب یہ کیا ہو رہا ہے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے نئے ٹیکس عائد کرنے اور پی آئی اے کی نجکاری کیخلاف دوسرے روز بھی ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔ بعدازاں کورم کی نشاندہی بھی کی گئی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن رہنماؤں کو اپنے چیمبر میں مدعو کر لیا۔ واک آؤٹ کے بعد تحریک انصاف کے ایک رکن نے کورم کی نشاندہی کی، گنتی کرائی گئی اور کورم پورا ہونے پر ایوان کی کارروائی جاری رکھی گئی۔ قومی اسمبلی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں لازمی تعلیم و تربیت کے حق کا بل، پاکستان آرمی ایکٹ دوسری ترمیم (ترمیمی) بل، قومی کمشن برائے تعلیم اقلیتاں بل پیش کر دئیے گئے۔ قاعدہ 83 کے ذیلی قاعدہ 3 میں ترمیم کی تحریک رائے شماری کے بعد مسترد کر دی گئی جبکہ ڈاکٹر عارف علوی، رمیش لعل اور نواب محمد یوسف تالپور کی تحاریک استحقاق پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔ قومی اسمبلی میں کشمیر پالیسی پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر امور کشمیر گلگت بلتستان چودھری برجیس احمد طاہر نے کہا ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات اور تجارت کشمیر کے مسئلہ کے بغیر نہیں ہو سکتی‘ دونوں ایٹمی ممالک کو افہام و تفہیم اور مذاکرات سے جلد یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں اگر رائے شماری ہو سکتی ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں؟ وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اٹھاتے ہوئے عالمی برادری پر واضح کیا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر عالمی ادارے کی قراردادوں پر عملدرآمد کرائے۔ برجیس طاہر نے کہا کہ ہمارے دل کشمیری عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ بابائے قوم نے کہا تھا کہ کشمیر کے بغیر پاکستان مکمل نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں ہوئیں۔ پاکستان کے اندرونی حالات کیسے بھی ہوں، اس کے باوجود وزیراعظم نے جنرل اسمبلی میں بھرپور طور پر کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں کالے قوانین کی موجودگی اور لاکھوں لوگوں کی شہادت کے باوجود تحریک آزادی کو دبایا نہیں جاسکا۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں یہ چنگاری کسی بھی وقت شعلہ بن سکتی ہے۔ بھارت نے ہمیشہ مذاکرات سے انکار کیا، پاکستان کا واضح موقف ہے کہ اس وقت تک تجارت اور مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں جب تک مسئلہ کشمیر پر بات نہیں ہوگی۔ کشمیریوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔ آنے والی نسلوں کے جذبات کو سمجھا جائے، موجودہ دنیا میں کسی کو غلام نہیں رکھا جاسکتا۔ وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ بھارتی وزیراعظم جب 1998ء میں پاکستان آئے تو انہوں نے یقین دلایا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات ہوں گے۔ دونوں طرف غربت ہے‘ مسئلہ کشمیر حل کرکے بھارت اور پاکستان دفاع پر اٹھنے والے اخراجات کی بجائے اپنی اپنی عوام کی زندگیاں بہتر بنانے پر خرچ کریں۔ معاملات طاقت کے بل بوتے پر حل نہیں ہوسکتے۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں قاعدہ 259 کے تحت بحث کا آغاز کرتے ہوئے شکیلہ لقمان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی رائے کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ میجر (ر) طاہر اقبال نے کہا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اٹوٹ انگ کے حوالے سے بھارت کا واویلا درست نہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر کیوں نہیں آتیں۔ کشمیر میں پانچ لاکھ لوگ اب تک شہید ہو چکے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی یونین کو مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر جنگ چھڑ گئی تو پھر برصغیر تک محدود نہیں رہے گی بلکہ عالمی جنگ کی شکل اختیار کر جائے گی۔ حاجی شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اب بھارت کا بھی بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور انشاء اللہ رہے گا۔ نعیمہ کشور خان نے کہا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا خطہ میں امن نہیں آئے گا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا نازک ترین مسئلہ ہے۔ مسئلے کو حل کرنے کے لئے دونوں طرف کے کشمیریوں سے پوچھا جائے۔ اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس شروع ہوگئی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ افغانستان میں قیام امن کے بغیر پاکستان میں حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ غلام محمد لالی نے کہا کہ وزیراعظم عالم اسلام کو اکٹھا کرکے کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لئے آگے بڑھیں۔ علاوہ ازیں توجہ مبذول کرائو نوٹس کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری راجہ جاوید اخلاص نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اسلام آباد کے تمام ہسپتالوں میں فضلہ کو ٹھکانے لگانے کا نظام اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ پمز کے علاوہ دونوں بڑے ہسپتالوں میں فضلہ کو ٹھکانے لگانے کا نظام موجود ہے۔ دریں اثناء ڈاکٹر عبداللہ نے ایوان میں مجموعہ ضابطہ فوداری ترمیمی بل 2015ئ، فرحانہ قمر نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں لازمی تعلیم و تربیت کے حق کا بل 2015ئ، شاہدہ اختر نے پاکستان آرمی ایکٹ دوسری (ترمیمی بل 2015ئ)، روبینہ خورشید نے قومی کمشن برائے تعلیم اقلیتاں بل 2015ء پیش کردیا۔ تاہم نعیمہ کشور نے قومی اسمبلی کے قاعدہ 83 کے ذیلی قاعدہ نمبر3 میں ترمیم کی تحریک پیش کی جسے رائے شماری کے بعد مسترد کردیا گیا۔
اسلام آباد (آن لائن+ اے ایف پی) نجکاری کمشن کے چیئرمین محمد زبیر نے کہا ہے پی آئی اے کی نجکاری اگلے سال جولائی تک کردی جائے گی۔ پی آئی اے کی نجکاری کے علاوہ کسی کے پاس کوئی بہترین پلان ہو تو اس پر غور کرینگے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق نجکاری کمشن کے چیئرمین محمد زبیر کا کہنا تھا پی آئی اے کے شیئر بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کردیئے جائینگے۔ پی آئی اے کی نجکاری کیلئے عرب ممالک، چین اور یورپ میں روڈ شوز کئے جائینگے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا پی آئی اے کی مینجمنٹ سروس کے ساتھ 26 فیصد حصص فروخت کئے جائینگے۔ انہوں نے مزید کہا پی آئی اے کی نجکاری کے علاوہ کسی کے پاس کوئی اچھا پلان ہو تو اس کو سننے کیلئے ہم تیار ہیں۔ اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے نجکاری کے وزیر محمد زبیر نے کہا پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ اس کو کئی برسوں سے ہونے والی شدید مالی خسارے، بدانتظامی کی وجہ سے اس کی ساکھ کو پہنچنے والی نقصان کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ جب حکومت اس کو فروخت کرنے کی منظوری دے دی گی تو نجکاری کمشن اس کو بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کرنے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے مزید بتایا حکومت نجکاری کے طریقہ کار کے بارے میں سوچ رہی ہے لیکن اس میں آپشن ہے پی آئی اے کے 26 فیصد حصے کو انتظامی کنٹرول کے ساتھ بیچ دیا جائے۔ پی آئی اے کا گذشتہ جون سے اب تک خسارہ 227 ارب روپے ہے جبکہ حکومت کو سالانہ 12 سے 15 ارب روپے پی آئی اے کو ادا کرنا پڑتے ہیں تاکہ ایئرلائن چلتی رہے اور ملازمین کو تنخواہیں مل سکیں۔