باروزئی خوش گماں، بلوچستان میں پاکستان کامستقبل پنہاں

جنرل جاوید محب وطن پاکستانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں، انہوںنے گلہ کیا کہ پروفیسر محفوط قطب کے گھر پہ نواب غوث بخش باروزئی کی دو مرتبہ ضیافت کی گئی مگر آپ لوگوںنے مجھے یاد نہیں کیا، میں تو نواب باروزئی کا پرانا مداح ہوں، ایک زمانے میں بلوچستان میں تقرری تھی، اسٹیل مل کے چیئر مین کے طور پر بھی میرا بلوچستان بہت آناجانا ہوا اور میںنے باروزئی کو سب سے زیادہ کھرا، مخلص اور حب الوطنی سے معمور پاکستانی پایا، وہ پاکستانی کی حیثیت سے اپنی پہچان کراتے ہیں،ویسے خاندانی طور پر پشتون ہیںا ور کسی پشتون کا بلوچستان میں وزیر اعلی بننا محال ہے ، مگر وہ اس منصب پر فائز رہے ا ور ان کے والد بلوچستان اسمبلی کے پہلے اسپیکر چنے گئے ۔
ڈیفنس کلب کے چائینز ہال میں ایک نشست ہوئی، اس کی میزبانی جنرل جاوید نے کی، پروفیسر محفوظ قطب اور چودھری عبدالوحید کو بھی ہنگامی طور پر بلا لیا گیا۔کوئی تین گھنٹے تک گفتگو کا سلسلہ چلا، اس دوران میں دن ڈھل چکا تھا، مگر اٹھنے کو جی نہیں چاہتا تھا، ہمارے کان نواب باروزئی کی خوش کلامی سے محظوظ ہو رہے تھے۔
میں آج کے بعد نواب غوث بخش باروزئی کو ایک خوش گماں سیاستدان کہوں گا، صحافتی زندگی میں بہت سے سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں ہوئیں مگر سبھی کسی نہ کسی طور پر مایوسی کا شکارنظر آئے ۔
نواب صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ایک خوشحال ا ور مستحکم پاکستان صاف دکھائی دیتا ہے۔ہماری مسلح افواج اس مقصد کے لئے جان کی بازی لگا رہی ہیں اور مجھے اپنے لیڈروں کی سوچ اور عمل میں پختگی حاوی دکھائی دیتی ہے۔ لیڈر شپ سے میری مراد روایتی سیاست دان نہیں بلکہ وہ نوجوان نسل ہے جو جدید تعلیم سے آراستہ ہے اور قبائلی، نسلی ، علاقائی، لسانی،گروہی تعصبات سے چھٹکارا پا چکی ہے۔ میری عادت بن گئی ہے کہ زیادہ وقت اسی نوجوان نسل کے ساتھ گزارتا ہوں اور میرا دل چاہتا ہے کہ ان کی دمکتی پیشانیوں کو بوسہ دوں۔
ملک کی معاشی ترقی کے لئے جو منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، وہ ذرا تاخیر سے نتائج سامنے لائے گی مگر یہ ترقی پائیدار ہو گی، یہ پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ ہمارا سب سے قریبی ہمسایہ ملک چین ہمارے منصوبوں میں گہری دلچسپی لے رہا ہے، چین کی اپنی ضروریات بھی ہیں اوراسے پاکستان سے دوستی بھی عزیز ہے، یہ تعلق دو آتشہ بن گیا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ جس تیزی سے تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔اب چینیوں نے اقتصادی کوریڈور کا بیڑہ اٹھایا ہے اور پاک فوج نے اس پر کام کرنے والے چینی ہنر مندوں کی سیکورٹی کے لئے ایک علیحدہ ڈویژن کھڑا کرنے کاوعدہ کیا ہے۔ اس راہداری سے علاقے میں ایک نیاانقلاب آئے گاا ور یہ معاشی انقلاب ہو گا جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی، اسی لئے بھارت نے پہلے تو اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ،اب وہ افغانستان کے ذریعے اس میں شمولیت کے لئے درخواستیں کرتا پھرتا ہے۔تاریخی طور پر شاہراہ ریشم کو چین اور باقی دنیا کے ساتھ تجارت کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اقتصادی راہداری اسی تجارتی سفر کو مزید آسان اور تیز تر بنا دے گی۔
باروزئی صاحب نے ایک نیا نکتہ اٹھایا، کہنے لگے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، ابھی تو رقبے کے لحاظ سے بڑا ہے مگر مستقبل میں اس کی معدنیات کو کھنگالا جائے گا تو فی لواقع یہ بڑا بھائی نظر آئے گا۔ یہاں لوہے کے پہاڑ ہیں، تانبے کی کانیں ہیں،سونے کے ذخائر ہیں، وافر کوئلہ ہے،اور زمین سب سے زیادہ زرخیز۔بس اسے پانی میسر نہیںمگر اس کی فراہمی کوئی مشکل یا نا ممکن کام نہیں۔
ہم نے حالیہ سیاست پر بات کرنا چاہی کہ کیا ڈاکٹر مالک کو برقرار رہنا چاہئے یا اسرار زہری کو باری ملنی چاہئے، نواب باروزئی نے کہا کہ مستقبل قریب کے لئے جو بھی حکومت آجائے،اس سے فرق نہیں پڑتا، ابھی تو صوبے کو مل جل کر چلایا جا رہا ہے، وفاقی حکومت کا اپنا کردار ہے، ایف سی الگ متحرک اور سرگرم ہے اور فوج بھی کسی سے پیچھے نہیں، آپ لوگ ہی جنرل جنجوعہ کی تعریفیں کرتے ہیں تو کسی وجہ ہی سے کرتے ہیں۔یقین کیجئے کہ فوج بلوچستان کے بارے میںیک سو ہے۔
بلوچستان کا سرداری نظام۔ بارزوئی نے کہا کہ یہ نظام انگریزوںنے اپنی ضروریات کے لئے تشکیل دیا تھا، اب یہ اپنی موت مر رہا ہے، نام نہاد سردار وںنے لڑ بھڑ کر دیکھ لیا،بھارت بھی مداخلت سے کبھی باز نہیں آیا، اب سبھی کو احساس ہو گیا ہے کہ مزاحمت سے کام نہیں چلے گا، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہو گا اور صوبے کے مجموعی مفاد پر متحد ہونا ہوگا۔
میںنے محسوس کیا کہ یہ باتیں جنرل جاوید کے دل کو لگ رہی تھیں۔انہوںنے رائے دی کہ باروزئی صاحب کو اسی مثبت انداز میں آگے بڑھنا چاہئے اور اپنے ارد گرد تعلیم یافتہ نوجوان نسل کو جمع کرنا چاہئے تاکہ مثبت سوچ رکھنے والے عناصر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نظرا ٓئیں۔
نگران وزیرا علی کے طور پر باروزئی نے باقی صوبوں کے وزرائے اعلی کی طرح یہ شکائت نہیں کی کہ وہ بے اختیار ہیں، ان کاکہنا ہے کہ وہ جو چاہتے تھے، کرتے تھے، انہیں سیکورٹی اداروںنے مشورہ بھی دیا کہ الیکشن مرحلہ وار کروا لیا جائے مگر وہ نہیں مانے، انہیں اعتماد تھا کہ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر ہو چکی ہے، اسی لئے ان کے صوبے میں الیکشن ہوا، ایک ہی روز ہوا،اورا س پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔ابھی جو وقت گزر رہا ہے، یہ عارضی مرحلہ ہے۔ صوبہ اپنے پائوں پر بہت جلد کھڑا ہو جائے گا تو سچی قیادت سامنے آئے گی اور اگر پنجاب میںمیٹرو نظرا ٓتی ہے تو آپ کو بہت جلد بلوچستان کے دوسرے اور دور درازکونے گوادر کی چمک دمک پر رشک آئے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایران چاہ بہار کو ترقی دے رہا ہے مگر مستقبل میں ایران بھی گوادر کی سہولتوں سے فیض یاب ہونے کو ترجیح دے گا۔اور آپ ذرا تصور کریں کہ چین، وسط ایشیا، روس، ایران اور کسی مرحلے پر بھارت بھی اکٹھے ہو کر گوادر کو استعمال کر رہے ہوں گے تو پاکستان کا مستقبل کس معراج کو چھو رہا ہوگا۔
میں نواب غوث بخش باروزئی کی خوش گمانی کا مداح ہو چکا ہوں۔خدا کرے وہ دن جلد آئے جب بلوچستان میرے دیس کا مستقبل بن جائے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن