اخبار بین حلقوں میں روزانہ کی خبریں تو اپنا تاثر قائم رکھتی ہیں اور کچھ لوگ روزمرہ کے تاثر سے تنگ آکر بعض اوقات اخبار بینی کو ترک کرنے ہی میں اپنی طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ روزانہ کی خبریں ایک ہی طرز میں ہوتی ہیں۔ مار دھاڑ، حقوق سلبی اور حقوق طلبی کی کھینچاتانی، جلوس جلسے، ریلیاں، احتجاج اور سنسنی خیزی کے علاوہ ڈرامائی انداز کی خوشخبریاں اور پھر مایوس کن نتائج کا سامنا، یہ سب کچھ طے شدہ طرز وادا کا ایک مستقل حصہ ہے۔اخلاقیات اور مذہبیات پر مبنی ادب میں ایک گہری اور ہمہ پہلو کشش ہمیشہ ہی موجود رہتی ہے۔ اخلاقیات اور مذہبیات کی روایتی باتیں ایک عرصے تک محض ادب برائے ادب کے زمرے میں شمار کی جاتی ہیں اور ذہنی و نفسیاتی اطمینان کا سامان بھی مہیا کرتی ہیں لیکن چونکہ انسان بہرحال اخلاقیات کا فطری طور پر کسی نہ کسی شرح سے پابند ہوتا ہے اور اخلاقیات کے عملی مظاہر بھی اس کی زندگی میں ضروری ہوتے ہیں ایسے ہی اخلاق پسند انسان اپنی زندگی میں اخلاقی ضابطوں کو رواج دینے کیلئے اخلاقیات کے پس منظر میں گہرے اعتقاد کا سرمایہ بھی ضرور رکھتے ہیں اور گہرے اخلاق و گہرے اعتقاد کیلئے قلبی محبت اور ذہنی اطاعت کی پونجی کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔عمل کی اصل قوت شوق ہے اور بعض دفعہ جبر بھی عمل کو متحرک کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ لیکن وہ عمل جس کی بنیاد اور قوت متحرکہ محبت و شوق ہوتی ہے اس عمل میں حسن، جاذبیت کے علاوہ پائیداری کی برکات بھی شامل ہوتی ہیں۔ پائیداری کیلئے بھی ضروری ہے کہ اعتقادی حسن اور غیرمشروط اطاعت کا جذبہ ایمان کی دنیا میں موجود ہو۔ ایمان کی دنیا تو تقاضہ ہی یہ کرتی ہے کہ اس جہانِ روشن میں۔ روشن محبت اور فطرت کی اطاعت ہو۔کچھ بڑی بات نہیں ہے۔ اگر ذہن پر تکبر کا طومار نہ ہو اور قلب پر نامعلوم گناہوں کی سیاہی کا پلستر موجود نہ ہو۔ حواس پر خودپرستی کا آسیب بھی مسلط نہ ہو تو روشن محبت کا فطری آوازہ نقارے کی گونج کی طرح وجودِ ذات کے ظاہری و باطنی حواس پر دستک دیتا نظر آئے گا اور یہ خوشگوار اعتقادی تجربہ کسی وقت بھی روبہ عمل لایا جا سکتا ہے کہ خالق اکبر کی محبت و معرفت کے راستے میں جس روشن محبت کی راہِ اول طے کرنا پڑتی ہے وہ اس رہنما کی محبت ہے جو خدائی نظام کائنات میں رحمتِ کامل کا درجہ رکھتا ہے۔ ومآ ارسلنک الا رحمۃ للعالمین کا واضح ترین مطلب یہی ہے کہ کل جہانوں کے نظام میں محبت مصطفیؐ کی معجز نما قوت ہی اخلاقِ باطنی اور اخلاقِ ظاہری پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔
یہ ماہ برکات ربیع الاول احترام و محبت کا استعارہ ہے۔ اس ماہ مقدس میں کائنات کی ہدایت بلند اور جہاں انسانیت کی ارفع قیادت نے انسانوں کے مقدرِ حسین کا دروازہ کھولا تھا۔ کائنات میں اعجازِ شعور اور عمل کی بلندی کو پیدا کرنے کا شوق اسی ہدایت کامل کی خیرات کا ایک رائج الوقت سکہ ہے۔ انسان کی ہدایت یافتہ دنیا میں رائج الوقت سکہ کبھی بھی بے قدر Devalue نہیں ہوتا ہے۔ اس سکے کا نام محبت و اخلاص اور حسنِ اخلاق ہے۔ اسی سکہ ایمان کو دین اسلام کی قوت کہتے ہیں۔ ربیع الاول وقت کی گردش میں اس لئے نمایاں نظر آتا ہے کہ کائنات میں انسانیت کی مردنی شکل کو غازہ نور عطا ہوا تھا۔ ربیع الاول شاہکار ربوبیت کے ظہور تقدس کا اتنا حسین اور نرالا معجزہ ہے کہ رسول اکرمؐ کی ذاتِ بے عیب و نقص نے انسانی نقائص و عیوب کو کمال و تطہیر کی قبائے انسانیت اوڑھا کر مخلوقات میں ممتاز ترین کر دیا اور حقیقی خلافتِ الٰہی کا مستحق بنا دیا۔ بعثت ایک باب ہے حیات محمدؐ کا۔ لیکن ولادتِ سیدنا محمدؐ ہی کائنات کی خاموش ہدایت کا افتتاحیہ ہے کہ جب ولادت مصطفیؐ کے وقت قیصر و کسریٰ کی جبروتی ثقافتی علامتوں کو زوال آیا۔ آسمانی کتابوں کے عالم ورطۂ حیرت میں گم ہوئے۔ علم و ثقافت کی نظری و عملی تبدیلی کا اظہار ہی نظام کائنات میں تازہ ہدایت کی نوید تھی کہ اب لوگ قوت عمل کو متحرک کرنے کیلئے جوہر حرکت کی طرف توجہ کریں۔ ولادت رسول اکرمؐ کے وقت معجزات کا کثرت سے ظہور اہل دنیا کیلئے ایک رحمت بھری تنبیہ تھی۔ جگانے کا سامان تھا کہ اب ذہنی و جذباتی دنیا میں ایک وجود مبارک کی محبت کا چلن بہت ضروری ہے جس نے اپنی بعثت اور تعلیمات کا مقصد ہی محبت و اخلاقیات کی فراوانی کو فروغ دینا بتایا تھا۔
اخلاقیات زندہ ہیں تو محبت کے شجر کی جڑیں بھی مضبوط تر ہوتی رہیں گی۔ اخلاقیات کو زوال آیا تو محبت کا چرچا کارِ فضول شمار ہونے لگے گا۔ ہم ربیع الاول میں میلاد و سیرت کے جلسوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں لیکن دینی و معاشرتی اخلاقیات سے تہی دامنی ہمارے کارِخیر کو بے نتیجہ بنا دیتی ہے۔ وجہ محض یہی ہے کہ ہم حرام و مشکوک مال کو پاکیزہ و طیب راستوں پر خرچ کرتے ہیں تو بارگاہِ خداوندی میں قبولیت کا درجہ نصیب نہیں ہوتا۔
انسان کی انسانیت کا نمو رزق حلال ہے۔ رزق حلال میسر نہ ہو تو جنت کی خوشبو بھی ایک تمنائے خام بن جاتی ہے۔حرام کے لباس سے نماز نہیں ہوتی، حرام کی خوراک سے ایمان کا دیا بجھ جاتا ہے۔ حرام کے روپے سے میلاد قبول نہیں ہوتی۔ ناجائز منافع خوروں کی تبلیغی مساعی گناہوں کے ڈھیر پیدا کرتی ہے۔ مکر و جبر سے حاصل شدہ رقم کی بنیاد پر اسلامی انقلاب نہیں آیا کرتے۔ربیع الاول یاد دلاتا ہے کہ ہم وانک لعلیٰ خلق عظیم کے پابند ہیں۔ رزق حلال ہی تمام اعلیٰ اخلاق کی بنیاد کو قوت افزا و پانی فراہم کرتا ہے کہ یہ شرط حیات ہے۔ آج کا تازہ موضوع جلسہ ہائے میلاد و سیرت ہی ہونا چاہیے کہ خلقِ محمدی علی صاحبہٰ الصلوٰۃ و التسلیمات کو زبان و عمل سے عام کیا جائے۔