پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی (علیگ) ہمہ صفت‘ عہد آفریں‘ ہمہ جہت اور نادرِ روزگار شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت بے مثال‘ لاجواب خطیب‘ ممتاز طبیب اور اعلیٰ ذوق کے حامل شاعر تھے۔ آپ منجھے ہوئے صحافی‘ سماجی و سیاسی کارکن اور سب سے بڑھ کر پکے اور سچے مسلمان تھے۔ تمام زندگی اسلام‘ پاکستان اور طب کیلئے سرگرم عمل رہے۔ زندگی اس شان سے گزاری جو حق پرستوں کے شایان شان ہوتی ہے۔ حالات و واقعات اور مسائل و مشکلات انکے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکے۔ جس کام یا تحریک میں حصہ لیا‘ اس میں آپکے پیش نظر واحد مقصد اسلام کی سربلندی و سرفرازی رہا۔ حکیم عنایت اللہ نسیم کا تعلق ایک دیندار گھرانے سے تھا‘ ان کی ولادت مردم خیز سرزمین سوہدرہ میں ہوئی۔ دینی تعلیم مولانا غلام نبی الربانی سے حاصل کی اور میٹرک مشن ہائی سکول وزیرآباد سے پاس کیا۔ ان کے چچا حکیم عبدالرحمن اپنے وقت کے نامور طبیب تھے۔ دوران تعلیم مولانا ظفر علی خان سے تعلق قائم ہو گیا۔ مولانا کا گائوں کرم آباد سوہدرہ اور وزیرآباد کے درمیان واقع ہے۔ آپ وزیرآباد جاتے ہوئے کرم آباد رکتے اور مولانا کی صحبت سے استفادہ کرتے۔ میٹرک کا امتحان امتیازی حیثیت میں پاس کیا تو مولانا ظفر علی خان کے ایماء اور اپنے چچا کی خواہش پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ طبیہ کالج میں داخلہ لیا جہاں آپ نے پانچ سالوں پر محیط ڈگری کورس پاس کرکے تعلیم مکمل کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی برصغیر میں مسلمانان ہند کا ایک علمی گہوارہ تھا۔ طبیہ کالج علی گڑھ میں قادیانی اساتذہ کا غلبہ تھا۔ پرنسپل ڈاکٹر اللہ بٹ بھی قادیانی تھے اور حکیم نورالدین کا بیٹا عبدالسلام عمر بھی طبیہ کالج میں تھا ۔ 1934ء میں قادیانیوں نے مسلم عوام کو دھوکہ دینے کیلئے سیرت کے نام لائل لائبریری میں جلسہ کا اعلان کیا جس میں پروفیسر اے بی حلیم اور خواجہ غلام السیدین کے نام بھی شامل کئے گئے تھے۔ اس زمانہ میں 21 اکتوبر کا دن علی گڑھ میں یوم تبلیغ کے طورپر منایا جاتا تھا۔ حکیم صاحب نے یہ صورتحال دیکھی تو دوستوں کا اجلاس بلا کر مجلس عمل بنائی اور مولانا ظفر علی خان کو علی گڑھ بلانے اور ان کا خطاب کرانے کا فیصلہ کیا جس پر انگریز پرووائس چانسلر مسٹر باتھم گھبرا گیا‘ لیکن مسلمان طلبہ کا ارادہ مصمم تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں آفتاب ہال دینے سے انکار کر دیا مگر طلبہ نے اس کی پروا نہ کی اور ادھر حکیم عنایت اللہ نسیم مولانا ظفر علی خان کو لیکر جلوس کی صورت میں آگئے اور آفتاب ہال پر قبضہ کر لیا۔ آفتاب ہال میں بغیر اجازت یہ دوسرا جلسہ تھا‘ اس سے قبل مولانا محمد علی جوہر نے بغیر اجازت تقریر کی تھی۔ شورش کاشمیری اپنی کتاب تحریک ختم نبوت میں اس بارے لکھتے ہیں:
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مرزائی اساتذہ کا غلبہ تھا۔ خود پرنسپل ڈاکٹریٹ قادیانی تھا اور چن چن کر مرزائی جمع کر رہا تھا۔ حکیم نورالدین کا بیٹا عبدالسلام عمر بھی وہاں تھا‘ اس کے متعلق الفضل میں لکھا گیا کہ وہ علی گڑھ کو اس طرح فتح کرے گا جس طرح طارق نے ہسپانیہ پر قبضہ کیا تھا۔ ان دنوں طلبہ کے روح رواں محمد شریف چشتی‘ انوار صمدانی نسیم سوہدروی‘ سردار عبدالوکیل خان‘ عمران القادری اور بعض دوسرے نوجوان تھے۔ انہوں نے مولانا کو لاہور بلوانے کا فیصلہ کیا۔ اس غرض سے یونین کا سیکرٹری دعوت نامے لیکر لاہور پہنچا۔ 26 نومبر 1934ء کو مولانا علی گڑھ تشریف لے گئے۔ اس رات یونیورسٹی میں جلسہ ہوا۔ مولانا نے قادیانیت کا پول کھولا اور ارباب بست و کشاء کو طبیہ کالج میں غلبہ پر لتاڑا۔ مولانا کی تقریر کا یہ اثر ہوا کہ یونیورسٹی کے ارباب فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہو گئے اور آئندہ بھرتی رک گئی اور علی گڑھ کے طلبہ میں قادیانی ایک گالی بن گئے۔‘‘
اس سلسلے کا دوسرا واقعہ اس طرح ہے کہ 1937ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین نے سر ظفر اللہ خان کو جو اس وقت وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن تھے کو کانووکیشن تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے دعوت دیدی۔ حکیم عنایت اللہ کی سربراہی میں طلبہ نے اس دعوت کی منسوخی کا فیصلہ کر لیا اور اس مہم کو سر کرنے کیلئے لاہور آکر علامہ اقبال سے ملے اور ان سے ایک میمورنڈم پر دستخط کرانے میں کامیاب ہوئے۔ اس پر علامہ کے علاوہ مولانا ظفر علی خان و دیگر اکابرین کے دستخط ہوئے تھے۔ جب میمورنڈم تقسیم ہوا اور ممبران کورٹ کو گیا تو سر ظفر اللہ کا کانووکیشن ایڈریس منسوخ ہو گیا۔ یہ دونوں واقعات تحریک ختم نبوت میں ہمیشہ روشن رہیں گے۔
حکیم عنایت اللہ نسیم دوران تعلیم ہی ملی۔ سیاسیات میں آگئے۔ علی گڑھ میں جب آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈرشن کا قیام عمل میں آیا تو تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے۔ یوں وہ اس کے بانیوں میں سے تھے۔ 1987ء میں حکومت پنجاب نے ان کی خدمات پر تحریک پاکستان گولڈ میڈل عطا کیا۔ مرحوم نظریہ پاکستان کے سچے سپاہی تھے۔ گزشتہ نصف صدی کی ہر تحریک میں دلچسپی لی مگر سیاست میں کبھی مفادات حاصل نہ کئے۔ پاکستان سے محبت ان کا جزو ایمان تھا۔ وہ کہا کرتے تھے یہ وطن ہم نے طویل جدوجہد اور بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ آزادی کی ناقدری پر ہم کو سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں سزا مل چکی ہے۔ دسمبر 1994ء میں چند روزہ علالت کے بعد 8 دسمبر کو پمز اسلام آباد میں جمعہ کی شام انتقال کر گئے۔ اگلے روز نماز جنازہ سوہدرہ میں حافظ احمد شاکر بن عطاء اللہ حنیف نے پڑھائی اور اپنے آباؤاجداد کے قریب سپرد خاک ہوئے۔