دل دل پاکستان‘ ناکارہ جہاز اور فائر بریگیڈ؟

جنید جمشید اس جہانی فانی کو چھوڑ کر کسی جہان دیگر میں چلا گیا مگر اس کی آواز زندہ رہے گی۔ میں اس سے کبھی نہ ملا مگر وہ میرے گھر کے فرد کی طرح لگتا تھا۔ میں اسے جانتا تھا۔ شاید وہ بھی مجھے جانتا ہو۔ کل ہی نامور گلوکار عدیل برکی سے بات ہو رہی تھی اس نے بڑی محبت سے میری باتیں کیں اور میری تحریروں تقریروں کا حوالہ بھی دیا۔ مجھے راحت فتح علی خان سے محبت تھی۔ وہ اچانک ہمیں چھوڑ گئے۔ میں بہت غمزدہ ہوا مگر رات کو وہ ٹی وی چینل پر موجود پوری مستی سے گا رہا تھا۔ مجھے پہلے جیسی سرمستی محسوس ہوئی۔ میں نے جمشید کو بھی سنا۔ وہ گانے بھی سنے جو مذہبی رجحان سے پہلی والی شخصیات کے تھے۔ جب اس کی نہ داڑھی نہ مونچھ۔
وہ مجھے دونوں منظروں میں اچھا لگا۔ جو منظر اس کی آواز بناتی تھی وہ بھی بہت خوبصورت تھا۔ جس طرح وہ پہلے والے گلیمر کی دنیا میں تھا اور اب وہ جس مذہبی گلیمر میں تھا وہ ایک کمپلیکس فری آدمی تھا۔ جس شخص کے لیے دین و دنیا ایک ہو جائے وہی کامیاب آدمی ہے۔
بڑے بڑے ماڈرن لوگوں کے سیمینار میں اس نے کہا کہ میں تو نعت پڑھوں گا۔ اس نے نعت اور گیت کا فرق مٹا دیا تھا۔ نعت سے بڑا گیت کیا ہو گا۔ رسول کریمؐ سے بڑا محبوب تو پیدا ہی نہیں ہوا۔ آپؐ محبوب خدا ہیں اور محبوب خلائق ہیں۔ جنید کشادہ دل آدمی تھا۔ وہ گانوں گیتوں کے خلاف نہ ہوا تھا۔ گانے وغیرہ کی محفلوں پر اس نے کبھی اعتراض نہ کیا۔
اس نے خدا کے بندوں سے محبت کی۔ دس حج کیے اور دیار حجاز میں حاجیوں کی خدمت اور خاطر تواضع میں کمی نہ ہونے دی۔ جنید جمشید نے جہاز میں سوار ہونے سے پہلے نماز ادا کی۔ اس سے پہلے ان لوگوں کے ساتھ بڑی محبت سے ملاقات کی جو نماز نہیں پڑھتے۔ وہ نماز پڑھتے اور نیکی کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ بھلائی کی تاکید بھی ان کی تبلیغ میں شامل ہوتی تھی۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں بہت ضروری ہیں۔ مولانا حالی فرماتے ہیں:
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئیں دنیا میں انساںکے انساں
اخبارات میں جنید کی جو تصویریں شائع ہوئی ہیں ان میں ان کی اہلیہ کی تصویر بھی ہے۔ اس سے یہ حوصلہ ہوا کہ وہ مذہبی حوالے سے تنگ نظر نہ تھے۔ ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ ہی ان دیکھی دنیائوں کی طرف چلی گئیں۔ یہ ہمسفری اور رفاقت کے جذبوں کی انتہا ہے۔ رفیق حیات اور رفیق سفر کی منزل ایک ہو گئی ہے۔
کہا ہے عارف کامل نے مجھ سے وقت وداع
محبتوں سے ہیں بڑھ کر رفاقتوں کے حقوق
آج ہر ایک زبان پر جنید جمشید کا گیت ہے تو میرے پاس بھی اس کے لیے یہی خراج تحسین ہے۔ دل دل پاکستان جاں جاں پاکستان۔ میں جنید جمشید کے ساتھ سارے خواتین و حضرات کے لیے دعا گو ہوں۔ وہ سب ہمسفر تھے اور اکٹھے ہی اگلے جہانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔
گوجرانوالہ کے میرے دوست اور ’’نوائے ادب‘‘ کے ایڈیٹر شاعر اور ادیب صدام ساگر کا یہ شعر دیکھیں:
قیامت کا ہے منظر جیسے ہر جانب
جنازے اٹھ رہے ہیں آدمیت کے
ایک ٹی وی چینل پر ڈاکٹر عامر لیاقت بڑے جذبے اور جوش، غصے اور غمزدگی کے اسلوب میں بول رہے تھے وہ تو چترال سے اڑنے والے جہاز کے حوالے سے متعلقہ اہلکاروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ایک ایسے جہاز پر بیش بہا قیمتی زندگیوں کو بٹھا دیا گیا تھا۔ جس کا ایک انجن کام نہیں کر رہا تھا اور وہ کسی طور پر پرواز بھرنے کے قابل نہ تھا۔ ایک ناکارہ جہاز کو کیوں پوری طرح چیک نہ کیا گیا۔
اسی روز پی آئی اے کے نئے چیئرمین بننے والے اعظم سہگل کو ڈاکٹر لیاقت نے زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ جنہوں نے کہا کہ جہاز میں کوئی نقص نہ تھا۔ نہ کوئی انسانی غلطی اس حوالے سے تھی۔ تو یہ سب کچھ پھر کیسے ہو گیا؟ کسی نے جہاز پر چھو منتر کیا یا کوئی تعویذ چل گیا۔ یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹر لیاقت نے بہت تفصیل سے اور بڑی جرات سے بات کی۔ ایسے آدمی کو کیوں چیئرمین پی آئی اے بنا دیا گیا جس نے مرنے والوں کے لیے افسوس کا اظہار تک نہ کیا۔ یہ تو زخموں پہ نمک چھڑکنے والی بات ہے۔ اس طرح کی مضحکہ خیزیاں اس المناک موقع پر ایک ظلم ہے بلکہ ظلم عظیم ہے۔
نجانے کیوں کراچی شہر میں ایک خاص مدت کے بعد آتشزدگی کا واقعہ ضرور ہوتا ہے۔ آگ پھیلتی جا رہی ہے اور آگ بھڑکانے والے بہت ہیں۔ آگ لگانے والے بھی بہت ہیں۔ سرکاری طور پر بڑے فخر سے بتایا گیا ہے کہ دو کروڑ کے شہر میں فائربریگیڈ کی 15 گاڑیاں ہر وقت ریڈی رہتی ہیں بلکہ ’’ریڈی میڈ‘‘ رہتی ہیں۔ فائربریگیڈ کی گاڑیاں کسی شہر میں ریڈی نہیں ہوتیں۔ درست حالت میں تو بالکل نہیں ہوتیں ان کی حالت زار دیکھی نہیں جاتی۔
لاہور میں کھنڈر جیسا ایک کمرہ فائربریگیڈ والوں کے پاس ہے۔ میں وہاں کئی دفعہ گیا ہوں کہ وہاں ہمارے بہت دل والے دوست بہت قادرالکلام زبردست شاعر اقبال راہی کبھی ملازم تھے۔ ان کی مصروفیت کا عالم یہ تھا کہ یہاں انہوں نے بہت بڑی شاعری کی۔
فائر بریگیڈ کی گاڑیاں اتنی پرانی کیوں ہیں؟ مجھے تو لگا کہ وہ پاکستان کی ہم عمر ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کا انتظام نہیں ہے۔ ہمارے افسران کے پاس جو گاڑیاں ہیں ان کی چمک دمک دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ حکام کی سہولتوں کے لیے بہت کچھ ہے اور عوام کے تحفظ کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔
کبھی جی آر آر ون میں آگ لگے تو افسران کو خیال آئے کہ آگ بجھانے کا انتظام بھی ضروری ہے۔ آگ بجھانے والا عملہ نظرانداز کیا ہوا عملہ ہے۔ آگ لگانے والے عملے کے لیے دنیا بھر کی سہولتیں ہیں۔
آخر میں برادرم ندیم بھابہ کا ایک شعر سن لیں۔ انہوں نے وزیر بننے والے اپنے بھائی کے لیے کھانے کا انتظام کیا تھا۔ کچھ ادیب شاعر دوستوں کو منصور آفاق نے بلا لیا۔ مجھے منصور کے علاوہ ڈاکٹر صغرا صدف نے بھی فون کیا تھا۔ ندیم بھابھہ کا شعر مجھے منصور آفاق نے سنایا تھا۔
بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھو لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...