قانونی سقم، فیملی عدالتوں سے طلاق، خلع لینے والی خواتین یونین کونسلوں کے چکر کاٹنے پر مجبور

Dec 09, 2016

لاہور( شہزادہ خالد سے)قانونی سقم اور یونین کونسلوں کے اہلکاروں کی ہٹ دھرمی کے باعث گھریلو حالات سے تنگ خواتین خلع،طلاق لینے کے لئے عدالتوں کے دھکے کھانے کے بعد یونین کونسلوں کے دفاتر اور اے سی آفس کے چکر کاٹنے پر مجبور ہو گئیں۔ ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق فیملی عدالتیں تین ماہ میں خلع کے کیس کا فیصلہ کرنے کی پابند ہیں لیکن اس عرصے میں ڈگری ہونے والے مقدمات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے دوسری طرف یونین کونسل نے تین ماہ کی تاریخیں لازمی قرار دے دی ہیں۔ لاہور کی فیملی کورٹس سے گذشتہ 6 ماہ کے دوران طلاق کی ڈگریاں حاصل کرنے والی 862 خواتین مختلف یونین کونسلوں میں عدالتی فیصلے جمع کرانے کے بعد یونین کونسلوں میں تاریخیں بھگت رہی ہیں۔ یو سی 155 مصطفیٰ آباد سے گذشتہ روز سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والی خاتون صغریٰ نے نوائے وقت کو بتایا کہ اس نے اپنے خاوند فیصل سے نومبر 2015 ء میں عدالت کے ذریعے طلاق لی اور فیصلہ یونین کونسل میں جمع کرا دیا اور ایک برس بعد یونین کونسل سے سرٹیفیکیٹ لینے میں کامیاب ہوئی۔ ایک خاتون رضیہ نے بتایا کہ یونین کونسل سے سرٹیفیکیٹ لینے کے لئے دو ہزار روپے دئیے۔یونین کونسل کے سیکرٹری نے کہا تھا کہ تم ایک تاریخ پر نہیں آئی تمہارا کیس داخل دفتر ہو گیا ہے اسے ری اوپن کرنے کے لئے اخبار میں اشتہار دینا ہو گا۔ اس حوالے سے قانونی ماہرین چودھری ولائت ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، طارق عزیز ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، مشفق احمد خاں عہدیدار ن لیگ لائرز فورم، مدثر چودھری کوآرڈینیٹر پاکستان بار کونسل و دیگر نے کہا کہ حکومت کو اس سنجیدہ مسئلے کے بارے میں فوری نوٹس لینا چاہیے اور قانون سازی کی جائے کہ طلاق لینے والی خاتون کو عدالت ہی ڈگری کے ساتھ سرٹیفیکیٹ جاری کر دے تاکہ بے سہارا خواتین کو یونین کونسل کے چکر نہ کاٹنے پڑیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء کے پہلے 6 ماہ میں8422 خواتین نے اپنے خاوندوں کے خلاف تنسیخ نکاح اور بچوں کی حوالگی کے لئے دعوے دائر کیے۔ 911 خواتین کو خلع اور تنسیخ نکاح کی ڈگریاں جاری ہوئیں۔

مزیدخبریں