کابل(رائٹرز+اے این این+نوائے وقت رپورٹ) روس سے طالبان کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے امریکی اور افغان حکام کی پریشانی میں اضافہ ہو رہاہے۔ پہلے سے خراب سکیورٹی صورتحال کو یہ مزید پیچیدہ بنا دیگا۔ ادھر روسی حکام نے طالبان کی مدد کی تردید کی ہے۔ سینئر اہلکار نے بتایا روس کی طرف سے طالبان کی حمایت خطرناک نیا رجحان ہے۔ امریکی کمانڈر جنرل نکلوسن نے بھی یہی بات کہی تھی۔ روسی سفیر الیگزینڈر نے کہا طالبان سے رابطے شہریوں کے تحفظ اور امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے مذاکرات کی حوصلہ افزائی کیلئے ہیں۔ بیانات تنازعہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ امریکی، افغان حکام اپنی ناکامیوں کا الزام ہمارے سر تھوپنا چاہتے ہیں۔ ادھر افغان سینیٹرز نے الزام عائد کیا ہے کہ روس اور ایران طالبان کی مدد کر رہے ہیں اور ان کی مدد سے طالبان جنگجو حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ عرب ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بیشتر ارکان کا کہنا ہے کہ روس اور ایران کی جانب سے طالبان جنگجوؤں کی مدد کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ تحریک طالبان افغانستان کے کئی جنگجو ایران کے مشہد، یزد اور کرمان شہروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ وہ وہاں سے روس جاتے اور پھر افغانستان میں آتے ہیں۔صوبہ فراہ کے گورنر آصف ننگ نے یورپی ریڈیو فری یورپ کو ایک انٹرویو میں کہا طالبان جنگجوؤں کی ایران میں موجودگی کے ناقابل تردید اور ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ روس نے طالبان کو ہتھیار دیئے ہیں۔ دوسری جانب ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے افغان عہدیدار کے الزامات مسترد کر دئیے ہیں۔ افغان سینٹ کے چیئرمین فضل ھادی مسلم یار کا کہنا تھا ان کے پاس ایران اور روس کی جانب سے طالبان کی مدد کے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ ادھر افغان فوج سے جھڑپ میں طالبان شوریٰ کارکن ملا حیدرعلی ہلاک ہوگیا۔ واضح نہیں ہوسکا مڈ بھیڑ کس علاقے میں ہوئی ہے۔