سفیر اسلام علامہ سید عبدالمجید فطرتاً مجاہد تھے ان کی شخصیت کو جس زاویہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے یہی خصوصیت نمایاں ملتی ہے۔ یعنی جہاد مسلسل۔ زمانہ طالب عملی سے ہی ان کے مزاج اور اور ذوق کا یہ رجحان ظاہر ہو گیا تھا۔ اپنے عظیم اساتذہ اور اسلاف سے انھوں نے جو چیز ورثہ میں پائی وہ احقاق حق اور ابطال باطل کا جذبہ تھا انھیں جہاں کہیںباطل کے اثرات نظر آئے ان سے ببرد آزما ہونے کے لئے وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر میدان عمل میں آ گئے۔ جید عالم دین کے لئے جہاں عظمت کردار، شخصی وجاہتم، علمی تجر، سوزدروں اور بلندی نظر ضروری ہے وہاں اظہار مافی الضمیر کے لئے خطابتی حسن بھی ناگزیر ہے۔ خطابت الفاظ کی موزونیت اور فقروں کی ترتیب کا نام ہی نہیں، یہ تو سب اضافی خوبیاں ہیں، خطابت در اصل دل سے نکلنے والی اس حقیقت کا نام ہے کہ وہ جس زبان اور جس انداز میں بھی ادا ہوں، سامعین کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ اس کے باوجود کہ میرے والد صاحبؒ نے سرائیکی گھرانے میں آنکھ کھولی، اردو زبان میں اللہ نے اجنھیں قادرالکلامی عطا فرمائی تھی۔ استفسار پر ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’بیٹا! میں نے نثر میں ابوالکلام اور نظم میں علامہ اقبال کو حفظ کیا۔ کوئی اچھا جملہ، شعر، محاورہ یا مضمون میرے سامنے آتا تو محفوظ ہوئے بغیر نہیں جا سکتا تھا‘‘۔ آپ کی خطابت چند بے شدہ جملوں یا خوبصورت الفاظ کی محتاج نہیں تھی اور نہ ہی وہ بیان کرتے وقت مروجہ استعاروں یا محاوروں کی تلاش کرتے۔ وہ صحیح معنی میں ضمیر کے خطیب تھے۔ فرمایا کرتے کہ ’’ تقریر دماغ سے نہیں جذب دروں سے ہوا کرتی ہے‘‘ ان کی تقریر سنجیدہ، مدلل، دوٹوک، تصنع سے پاک اور بلاتکلف ہوا کرتی تھی۔ دوران گفتگو سطحیت اور جذباتیت سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ انھوں نے اپنی مخاطب کو نہ کبھی گرے الفاظ سے یاد کیا اور نہ ہی اس کی عزت تفس کو مجروح کی۔ وہ مرض کے دشمن، مگر مریض کے چارہ گر تھے۔ مزاج میں شائستگی اور متانت غالب تھی انداز بیان کبھی ثقافت و شرافت سے فروتر نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ بے شمار افراد کی ہدایت کا ذریعہ بنے۔ قرآن کریم پڑھنے میں اللہ نے انھیں خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ وہ جب اپنے مخصوص انداز می قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو دل و نگاہ معطر ہو جائے۔ قضا وجد آفریں ہو جاتی اور زنگ آلود دلوں کو جلا ملتی۔ سرکار کل عالمؐ کی خدمت میں جب نعتیہ اشعار کا ہدیہ عقیدت پیش فرماتے تو رونے لگتے
شان میں جس کے نہیں کوئی ثانی وہ رسولؐ
دین فطرت پر ہے جس کی حکمرانی وہ رسولؐ
جس کا تیور ہے حکم آسمانی وہ رسولؐ
موت کو جس نے بنایا زندگانی وہ رسولؐ
اس لمحے ملائکہ کا نزول محسوس ہونا، سامعین درود و پاک سے زمزمہ سنج، اشک ہائے مسلسل کی برسات لئے اس سفر سعادت میں ہم رکاب ہو جاتے۔ گھنٹے لمحات بن جاتے اور دل کے خالی ظروف اپنی تشنہ لبی کو حب رسولؐ کے آب حیات سے سیراب کرتے۔ ان کی زندگی کے بنیادی اہداف میں تو توحید و سنت کی اشاعت، عظمت اصحاب و اہلیتؓ، تحفظ ختم نبوت، امت مسلمہ کی فکری، ذہنی اور اخلاقی تعمیر اور احترام آدمیت کے حوالے سے عالم انسانیت کو مرکزیت میں لانا رہے۔ انہی اہداف کے حصول کی خاطر وہ دنیا کے 147 ممالک کا سفر کر چکے تھے۔ حضرت والد صاحب ؒ نہ صرف کلام و بیان کے جوہر سے آراستہ تھے بلکہ اللہ نے انہیں تصنیف و تالیف کا بھی خاص ذوق عطا فرمایا تھا۔سورہ عصر کی مختصر تفسیر کرتے ہوئے دریا کو کوزہ میں کس طرح بند کیا ملاحظہ فرمائیے ۔’’ انسانی زندگی ، اس کے عوامل،احساسات و حسرتیں،زمانہ کی پیچیدہ آویزشیں کی بے پناہ خواہشیں ،اس طوفان ِ رنگ و بو میں ایمان کی قندیل اور سفینۂ عمل ہی ساحل بکنار کر سکتا ہے۔لیکن یہ ایک صبر آزما سفر ہے جو سچائی و صبر کی بھرپور صلاحیت و استعداد سے تکمیل آشنا ہو سکتا ہے‘‘۔حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ وطن عزیز پاکستان کے دگرگوں دینی حالات پر کبیدہ خاطر ہو کراپنے دکھ کو ان الفاظ کا جامہ پہناتے ’’ صرف یہی نہیں کہ اسلام کو محکوم رکھا گیا ،بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فرقہ وارانہ منافرت کی بنیاد پر لیڈر شپ کی تعمیر کی گئی تاکہ اسلام ایک متنازعہ مذہب ثابت کیا جا سکے اور کہا جا سکے کہ کون سا اسلام نافذ کیا جائے ؟ لہٰذا اسے منبر و محراب تک ہی رہنے دو ‘‘حضرت والد صاحب رحمہ اللہ علما ء کرام کو حجروں اور خانقاہوں سے باہر میدان عمل میں کارہائے نمایاں سرانجا م دینے کی ترغیب دیتے رہے اور اس ضمن میں ان کا سرمایہ حیات جمعیت علماء اسلام کے ساتھ ان کی قلبی و عملی وابستگی کی صورت رہا۔جس کی ابتداء مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودجبکہ قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان کے ساتھ دائمی رفاقت پر ہوئی۔ 3دسمبر 2015 جمعرات عین طلوع آفتاب کے وقت آسمان خطابت کا ماہ کامل اپنی منزل کو پہنچا۔ اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے اور خانوادۂ ندیم کو ان کے صدقہ جاریہ کے طور پر ان کی خدمات کے تسلسل میں قبول فرمائے۔ آمین