انتہاپسند امریکی صدر

امریکی صدر کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے اعلان نے پوری دنیا میں آگ لگا دی ہے۔ ٹرمپ کے اس انتہا پسندانہ فیصلے کے خلاف نہ صرف مسلم اُمہ نے احتجاج کیا ہے بلکہ فرانس، جرمنی‘ برطانیہ‘ روس‘ چین اور یورپی یونین نے بھی اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے اور اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ اس سے دنیا میں دہشت گردی بڑھے گی۔ دوسری طرف اقوام متحدہ نے بھی ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ جب سے امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا ہے۔ یہ نفرت اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔ کیاٹرمپ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کے اس شیطانی فیصلے کی وجہ سے پوری دنیا میں دہشت گردی کی آگ مزید بھڑک اٹھے گی۔ کیا ٹرمپ انسانی حقوق کے آداب بھی بھول گئے ہیں۔ سلامتی کونسل نے امریکی صدر کے اس فیصلے کو انسانی حقوق کے منافی قرار دے دیاہے۔ ہم نے سنا تھا کہ امریکی بہت انسانیت نواز ہیں‘ وہ ایک چڑیا کو بھی نہیں مرنے دیتے لیکن ٹرمپ تو پوری انسانیت کا قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیا امریکی لوگوں نے ٹرمپ کو اس لئے منتخب کیاتھا کہ وہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے شعلوں میں جھونک دیں؟ کیا امریکی عوام اتنے بے وقوف ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ اگر ایک سپر پاور کا صدر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکی عوام ظالم‘ جابر‘ انسان دشمن‘ امن مخالف اور دہشت پسند ہیں۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ دنیا سے امن وسلامتی کا نام ونشان تک مٹ جائے اور ہر ملک‘ شہر اور ہر گھر نفرت اور خوف کی آگ میں جل کر بھسم ہو جائے۔ پاکستانی حکومت کب تک اور کہاں تک امریکی سفارتخانوں کی حفاظت کرتی رہے گی اور کب تک امریکیوں کو اپنے ملک میں سکیورٹی مہیاکرتی رہے گی اور صرف پاکستان ہی کیوں؟ ہر اسلامی ملک میں امریکی سفارتخانے اور امریکی عملہ خطرے کی حدود میں داخل ہوچکا ہے اور ان کی جان کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں جس کی مکمل ذمہ داری صدر ٹرمپ پر ہے۔ کیا وہ اس بات سے انکار کرسکتے ہیں؟ ٹرمپ کہاں کہاں اپنے شہریوں کی حفاظت کرتے رہیں گے؟ کہاں کہاں اپنے سفارتی عملے اور سفارت خانوں کو بپھرے ہوئے مسلمانوں سے بچاتے پھریں گے؟ یہ آگ جو ٹرمپ نے لگائی ہے اسے بجھا بھی وہی سکتے ہیں اور اس کا ایک ہی حل ہے کہ اپنا احمقانہ فیصلہ واپس لے لیا جائے۔ تاکہ انسانیت کا مستقبل تباہی وبربادی سے بچایا جاسکے۔ویسے ٹرمپ کے اس فیصلے کو اگر دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ مسلمانوں کے لئے بہت مبارک اور مفید فیصلہ ہے‘ وہ یوں کہ اس فیصلے کی بدولت پورا مشرق وسطیٰ ہم آواز ہوگیا ہے۔ اوآئی سی نے بھی اس فیصلے کے خلاف اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں یقینی طور پر اس کی مخالفت ہی کی جائے گی۔ اس فیصلے کی بدولت مسلمانوں کو آپس کے جھگڑے اور دشمنیاں ختم کرنے کا انمول موقع مل جائے گا۔ پورا عالم اسلام یکجان‘ یک آواز ہوکر امریکہ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے گا اور یوں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی قوت کا اندازہ بھی ٹرمپ کو ہو جائے گا۔ ایک طرح سے ٹرمپ نے امریکہ کے زوال کی دستاویز پر دستخط کیے ہیں۔ اگر انہوں نے یہ فیصلہ واپس نہ لے لیا تو بہت جلد امریکہ کے ٹکڑے ہو جائیں گے اور پوری دنیا میں امریکی اپنی جان بچاتے پھر رہے ہوں گے اور ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی۔ یوں علامہ اقبال کی یہ خواہش پوری ہو جائے گی۔
؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
اللہ تعالیٰ کے رنگ بڑے نرالے ہوتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بات کو ہم اپنے لئے نقصان دہ سمجھ رہے ہوتے ہیں وہی ہمارے لیے مفیدہوتی ہے اور جس چیز کو ہم سودمند سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے ٹرمپ کی مت مار کر اس سے یہ کام کروایا ہے کیونکہ شاید اب خدا کو بھی یہ منظور ہے کہ مختلف فرقوں‘ قوموں‘ قبیلوں میں بٹے ہوئے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں اور تمام تفرقات وتضادات بھلا کر اسلام دشمن قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں اور اس وقت تک لڑیں جب تک فتح یاب نہ ہو جائیں۔

ای پیپر دی نیشن