’’عمران طاہر القادری‘ زرداری نیا سیاسی اتحاد‘‘ موضوع گفتگو بنا رہا
جمعہ پارلیمنٹ کی لابیوں میں’’ عمران خان ، طاہر القادری اور آصف زردای‘‘ پر مشتمل قائم ہونے والا ’’نیا سیاسی گٹھ جوڑ‘‘ موضوع گفتگو بنا رہا ۔ بیشتر ارکان نے اس رائے کا اظہار کیا ہے اگر اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو گرانے کے اسلام آباد میں دھرنا دینے کی کوشش کی تو دھرنے کے شرکاء کو ان مقامات پر ہی پوری ریاستی قوت سے روک دیا جائے گا جہاں سے اسلام آباد کے لئے قافلے روانہ ہوں گے حکومت کسی جلوس کو اسلام آباد کی جانب روانہ نہیں ہونے دے گی قومی اسمبلی کے50سیشن کی دوسری نشست کورم کی نذر ہو گئی کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ملتوی کرنا پڑا کورم پورا نہ ہونے پر حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن حکومتی ارکان جن کی غیر حاضری کے باعث کورم ٹوٹتا ہے کبھی شرمندہ نہیں ہوتے وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب حکومتی ارکان کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں لیکن حکومتی ارکان کی پارلیمنٹ کی کارروائی میں عدم دلچسپی کی وجہ سے اپوزیشن حکومت کے لئے پریشن کن صورت حال پیدا کرتے رہتے ہیں جمعہ کو کورم کی نشاندہی کرنے کا ’’اعزاز ‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل ہوا ہے ،اپوزیشن ایوان میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلقہ توجہ مبذول کرانے کے نوٹس پر حکومتی جواب پر اصرار کررہی تھی ،پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ان کی حمایت کی، ڈپٹی سپیکر نے اس کو نظر انداز کر دیا ایوان میں وقفہ سوالات کے بعد ایجنڈے کے مطابق کارروائی شروع کی، ایجنڈے پر جماعت اسلامی کے ارکان صاحبزادہ طارق اﷲ،صاحبزادہ محمد یعقوب، عائشہ سید اور شیر اکبر خان کا فاٹا اصلاحات کمیٹی کی فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی سفارش پر عملدرآمد نہ کئے جانے سے متعلق توجہ مبذول کرانے کا نوٹس بھی تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے تجویز دی کہ فاٹا سے متعلق جماعت اسلامی کے اس اہم نوٹس کو پہلے لیا جائے ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی نے پیپلز پارٹی کی خاتون رکن کی تجویز کو نظر انداز کر دیا مزید کارروائی کو آگے بڑھایا تو جماعت اسلامی کے رکن صاحبزادہ طارق اﷲ اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے اور متذکرہ نوٹس نہ لینے پر احتجاج کیا 12 بجکر 5 منٹ پر ایوان میں شازیہ صوبیہ نے کورم کی نشاندہی کر دی جس پر کورم پورا نہ ہونے پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کارروائی کو پیر تک ملتوی کر دیا سپیکر سردار ایاز صادق نے جمعہ کو اجلاس میں وقفہ سوالات کی کارروائی کے دوران وزیٹر گیلری میں سیکرٹری داخلہ کی عدم موجودگی کا نوٹس لیا اور وزارت داخلہ کے دیگر آفیسران کو ڈانٹ پلاتے ہوئے گیلری سے نکال دیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو سپیکر سردار ایاز صادق نے وزارت داخلہ سے 24 سوالات کے جوابات نہ آنے کا نوٹس لیا انہوں نے صورتحال کو انتہائی افسوسناک قرار دیا انہوں نے وزیٹر گیلری میں وزارت داخلہ کے سیکرٹری کی موجودگی کے بارے میں دریافت کیا تو سپیکر کو بتایا گیا کہ سیکشن آفیسر موجود ہیں جس پر سپیکر نے انتہائی غصے کے عالم میں سیکشن آفیسر کو کہا ’’گیٹ آئوٹ‘‘ اور سیکرٹری کو اپنے چیمبر میں طلب کر لیاسپیکر نے وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوالات کے جوابات آئے اور نہ سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری آئے ہیں کیوں نا اجلاس کا خرچہ وزارت داخلہ کے سیکرٹری سے وصول کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے اور نا قابل برداشت ہے ارکان محنت سے سوالات تیار کرتے ہیں۔وزارت داخلہ کے دو درجن سولات کے جوابات نہیں آئے ہی انہوں نے طلال چوہدری کو بھی ڈانٹ پلا دی اور کہا کہ فوری طور پر سیکرٹری داخلہ اور جوائنٹ سیکرٹری کو طلب کر کے ان کے چیمبر میں بھجوایا جائے سپیکر نے انتہائی غصہ میں اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کی صدارت کی سپیکر نے صورتحال سے وزیراعظم کو بھی آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ’’ اگر یہی رویہ رہا تو وزیراعظم سے شکایت کروں گا کہ کسی نہ کسی وزیر کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے گا،‘‘۔سپیکر نے سیکریٹری داخلہ ارشد مرزا کو پارلیمانی بزنس کے حوالے سے وزارت کی کارکردگی کو بہتر بنانے ہدایت کی قومی اسمبلی میں آئندہ ہفتے فیض آباد دھرنے کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتحال پر بحث ہو گی وفاقی وزیر داخلہ چودھری احسن اقبال ارکان قومی اسمبلی کو اس معاملے پر اعتماد میں لیں گے حکومت اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اپنامؤقف پیش کریں گے حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا گیا ہے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر یلغار کرنے والوں سے نمٹنے کے لئے خصوصی فورس قائم کردی گئی ہے ، دھرنوں سے نمٹنے کے لئے سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس معاملے پر پوائنٹ سکورنگ نہیں ہونی چاہیے‘ توہین مذہب اور توہین اسلام کے الزامات لگانے سے حکومت کے لئے ایکشن لینا مشکل ہو جاتا ہے۔
”عمران طاہر القادری‘ زرداری نیا سیاسی اتحاد“ موضوع گفتگو بنا رہا
Dec 09, 2017