سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی گوجرانوالہ سے گوجرانوالہ تک

سابق سیکریٹری خارجہ سینیٹر محمد اکرم ذکی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، میری اُن سے ملاقات 14 سال قبل پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے صدر حبیب ملک اورکزئی کی وساطت سے ہوئی، پہلی دفعہ دونوں صاحبان میرے دفتر تشریف لائے، گوجرانوالہ کی مٹی سے جنم لینے والے کو اپنی مٹی سے زیادہ کسی سے کیا محبت ہو سکتی ہے، اِسی ناطے سے اُنھوں نے ہمیشہ پیار محبت اور احترام دیا، پہلی ملاقات کے بعد تو ایک ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ مرحوم اکرم ذکی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، وہ ایک انتہائی سادہ مگر باوقار شخصیت کے مالک تھے، اُن کی تعلیمی قابلیت تو دنیا مانتی تھی۔ پہلی ملاقات ایسی ہوئی کہ اُن سے ایک پیار کا رشتہ قائم ہو گیا جو آخر وقت تک قائم رہا، چھ ماہ قبل اُنھوں نے مجھے گوجرانوالہ آنے کی خبر دی، سرکٹ ہائوس میں میں نے اپنے ساتھیوں میاں اظہر حسین اور شاہد اقبال کے ہمراہ اُن کا استقبال کیا، وہ پہلے کی طرح انتہائی خوشی، محبت اور شفقت کے ساتھ ملے، کمشنر گوجرانوالہ نے اُن کی خوب آئو بھگت کی مگر اُنھوں نے کھانے کی دعوت یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ میں آج عتیق یوسف ضیاء کا مہمان ہوں اور ایک پرائیویٹ کام کیلئے آیا ہوں، شاید اُنھوں نے اسلام آباد میں بھی کسی کو نہیں بتایا تھا کہ گوجرانوالہ کس مقصد کیلئے جارہا ہوں۔ اُنھوں نے مجھے ساتھ لیا اور گوجرانوالہ کے قدیمی قبرستان کلاں کو چل دئیے، راستے میں اُنھوں نے مجھے بتایا کہ بڑے قبرستان کے ساتھ ملحقہ ہمارے فیملی قبرستان کا احاطہ ہے جہاں میرے والدین اور عزیز رشتہ دار مدفون ہیں، وہاں جا کر مجھے بتایا کہ یہ میری والدہ کی قبر ہے، میری وفات پر مجھے والدہ کے قدموں کی طرف دفن کر دینا، عجیب صورتِ حال تھی ،اُس وقت اُن کی صحت قابلِ رشک تھی، سخت گرمی کے دنوں میں وہ کافی دیر اُس قبرستان میں کھڑے ہمیں اُن قبروں کے متعلق بتاتے رہے، قبرستان سے تھوڑے فاصلے پر ایک پرانا سکول ہے جس کو عطاء محمد ہائی سکول کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ وہاں رُکے اور ماضی کے جھروکوں میں کھو گئے، بتانے لگے کہ اِ س سکول سے میں نے تعلیم حاصل کی ہے، میری فیملی گوجرانوالہ میں تھی بعد میں لاہور اور اسلام آباد شفٹ ہوگئے۔ابھی چند دن پہلے مجھے اُنھوں نے فون کیا کہ میں گوجرانوالہ آنا چاہتا ہوںمگر صحت اجازت نہیں دے رہی، ایسے ہی دوسرے تیسرے دن خیر خیریت دریافت کر لیتا تھا مگر اچانک جمعرات 30 نومبر کی رات مجھے حبیب ملک اورکزئی کی کال آگئی کہ اکرم ذکی صاحب وفات پا گئے ہیں اور اُ ن کی وصیت تھی کہ گوجرانوالہ میں والد کے پہلو میں دفن کیا جائے، میں کال سنتے ہی سکتے میں آگیا، شاید اِس قسم کے بندوں کو پہلے ادراک ہو جاتا ہے، اُن کی حس عام آدمی سے زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ 12 ربیع الاول کو جمعتہ المبارک کے دن اُنھیں گوجرانوالہ میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ اسلام آباد کے جنازے کے بعد گوجرانوالہ میں عجیب صورتِحال دیکھی جب اُن کا جسد ِخاکی قبرستان پہنچا تو اسلام آباد سے آئے ہوئے اُنکے ساتھ 20/25 افراد تھے، میں گہری سوچ میں تھا کہ اتنے بڑے آدمی کا جسد ِخاکی پڑا ہے اور ہم 20/25 لوگ صرف نمازِ جنازہ پڑھیں گے لیکن نہ بھولنے والا عجب نظارہ دیکھا کہ جسد ِخاکی رکھتے ہی جنازہ گاہ میں پانچ اور جنازے داخل ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں افراد جمع ہوگئے، قبرستان میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، گوجرانوالہ کے قبرستان کلاں کی جنازہ گاہ میں مرحوم کی نمازِ جنازہ تین دفعہ ادا کی گئی، شاید یہ واقعہ زندگی بھر نہ بھلا سکوں گا،ایک نابابغہ ٔروزگار شخصیت جہانِ فانی سے تو کوچ کر گئی مگر پاکستان کی تاریخ اُنھیں کبھی فراموش نہ کرپائے گی۔مرحوم اکرم ذکی بنیادی طور پر وسیع تر مطالعہ کے حامل ایک علمی دانش ور شخصیت تھے چنانچہ اُنہیں فارن سروس کے دوران پاکستان کی جیو پولیٹیکل پوزیشن کے حوالے سے خارجہ امور میں پاکستان کے مفاد میں پالیسیاں ترتیب دینے کا موقع بھی ملا ۔ یہ کہا جا سکتا ے کہ مرحوم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان چین دوستی کو تقویت پہنچانے میں مرحوم اکرم ذکی کی فکری صلاحیتوں کا بھی کافی دخل تھا جس کے باعث پاکستان چین تعلقات بتدریج سی پیک کی موجودہ سطح تک پہنچ گئے۔ درحقیقت مرحوم اکرم ذکی علم کا خزانہ تھے اور پاکستان کی تاریخ پر اُنکی گہری نظر تھی۔اُنہوں نے بیوروکریسی کا حصہ رہتے ہوئے بھی اور پارلیمنٹ کے اَپر ہائوس میں سینیٹر کے طور پر اقتدار کی سیاسی غلام گردشوں میں پلتی ہوئی کرپشن کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی قیام پاکستان کے موقع پر چند کھوٹے سکوں کا تذکرہ کیا تھا، البتہ جس جسیم اور بھاری بھرکم کرپشن کو اُنھوں نے خود مسلم لیگ کی قیادت میں اُبھرتے دیکھا وہ ایک انتہائی مایوسی کن اَمر تھا۔ اُنہوں نے بیرونی ممالک میں پاکستان کے سفارتی مشن میں سروس کے دوران دنیا بھر کی جمہوریتوں کی بود و باش کو بہت قریب سے دیکھا تھا ۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ دنیا بھر کے ریاستی انتظامی ڈھانچوں کی طرح پاکستان کی انتظامی مشینری کی بنیاد بھی قائداعظم نے آئین و قانون کی حکمرانی، معاشرتی عدل و انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کی استواری کیمطابق ہی تشکیل دی تھی اور کچھ کام قانون ساز اسمبلی کیلئے چھوڑ دیا تھالیکن بانیانِ پاکستان کے رخصت ہوتے ہی اقتدار کی غلام گردشوں میں اِن اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ایک طاقتور طبقے نے جس بے دردی سے سیاسی ، انتظامی اور مالیاتی اداروں میں کرپشن، بدعنوانی اور اقربہ پروری کا بازار گرم کیا اُس کی مثال دنیا بھر کے ملکوں میں خال خال ہی ملتی ہے،مرحوم اکرم ذکی کے ذہن پر کیونکہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے افکار تازیانے کی حیثیت رکھتے تھے اِس لئے اُنہوں نے مختلف سیاسی ، سماجی اور علمی فورمز پر کرپشن کے خلاف اچھائی کی آواز کو بلند کرنا شروع کیا لیکن اشرافیہ کے طاقتور نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے کے مترادف کرپشن ، بدعنوانی اور اقربہ پروری کی ملکی کیفیت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ۔ چنانچہ سینیٹر کے طور پر بھی اور سینٹ میں اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی مرحوم نے اپنے تجربات کو دانشورانہ علمی سرگرمیوں کے ذریعے نوجوان نسل میں منتقل کرنے اور اُنہیں بہتر مستقبل بنانے اور بدترین حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے عزمِ مصمم کی فکر جگانے کاکام شروع کیا۔ اُنکی ابتدائی کاوش مارچ 2005 میں دیکھنے میں آئی جب اسلام آباد میں اُنہوں نے ڈاکٹر محمد رفیق مرزا مرحوم کے تعاون سے بیدرایٔ فکر فورم کی بنیاد رکھی اور اِس فورم کی پہلی ہی فکری نشست میں راقم کو اقتدار کی فصیلوں میں پلتی ہوئی کرپشن پر ریسرچ مقالہ پیش کرنے کیلئے کہا۔ اسلام آباد میں قائم یہ فورم آج بھی جاوید علی بھٹی کی قیادت میں اپنی ہفتہ وار فکری نشستوں میں علم کے چراغ روشن کئے ہوئے ہے، اُن کی دوسری کاوش مارچ کے ہی مہینے میں 2010 میں راولپنڈی اسلام آباد میں دیکھنے میں آئی جب اُنہوں نے قومی دنوں کو عوامی سطح پر منانے اور نئی نسل کو فکر اقبال و قائد سے روشناس کرنے کیلئے جناح اقبال فکری فورم کی بنیاد رکھی جسکی سرگرمیاں آج بھی جاری و ساری ہیں۔ مرحوم اکرم ذکی خود بھی قومی اور بین اقوامی موضوعات پر تحقیقی مضامین لکھتے تھے جو نہ صرف ملک کے مشہور اخباروں میں شائع ہوتے تھے بلکہ مختلف ٹی وی چینلز پر بھی اُنکی قومی فکر کی بازگشت اکثر و بیشتر سنائی دیتی تھی۔ چنانچہ 2013 میں حضرت سلطان باہو کے خانوادے صاحبزادہ سلطان احمد علی نے مرحوم اکرم ذکی کی مشاورت سے وفاقی دارلحکومت میں ایک اہم اسلامی نظریاتی تحقیقی ادارے مسلم انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی تو ملک میں اسلامی فکر و نظر کی افادیت کا احساس ہوا چنانچہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کا شمار آج اسلامی دنیا کے چند اہم تحقیقی اداروں میں ہوتا ہے۔مرحوم نے گوجرانوالہ سے گوجرانوالہ تک کے سفر میں دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرکے اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑے ہیںاُس پر گوجرانوالہ کے شہریوں کو فخر ہے، اللہ تعالیٰ اُنھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے اور کروٹ کروٹ آسانی پیدا فرمائے، آمین

ای پیپر دی نیشن