معاشی ترجیحات

Dec 09, 2017

شیخ منظر عالم

وزارت خزانہ ،اقتصادی امور و منصوبہ بندی جو کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں ہمارے ملک میں وہ اہم بنیادوں اورستونوں پر بھی بیساکھیوں اور ہسپتال کے اسٹریچر پر چل رہی ہے عقل حیران وپریشان ہے کہ موجودہ حکومت کے پہلے چار سال عموماً اور گزشتہ چھ ماہ سے خصوصاً اس اہم وزارت سے اتنی بے حسی ، لاپرواہی اور غفلت کیوں برتی جاتی رہی ہے۔ اسکے علاوہ آخر محترم اسحاق ڈار صاحب کو معیشت کی دگرگوں حالت کے باوجود وزارت خزانہ کے لئے کیوں لازم وملزوم سمجھا جا رہا ہے۔ گزشتہ چارساڑھے چار سالوں میں پاکستانی معیشت بکھری، برآمدات میں کمی ہوئی، درآمدات میں اضافہ ہوا، تجارتی خسارے میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا، بہرکیف اب حکومت سنبھل گئی ہے۔

اس وقت میں ماضی کی تفصیلات میں جائے بغیر حکومت سے عرض ہے کہ اب فرضی و مصنوعی اعدادوشمار کے بجائے حقائق پر انحصار کیا جائے۔ وزارت خزانہ کیلئے کسی ایسے فرد کا انتخاب کریں جو کم از کم ملک کی معاشی پالیسیوں اور اقتصادی امورسے کماحقہ واقف بھی ہو اور انتظامی صلاحیتوں سے بہرہ مند بھی۔ وہ عالمی مالیاتی اداروں کی کاسہ لیسی کے بجائے پاکستان کے ذمینی حقائق سے استفادہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اب تجربوں کا وقت نہیں ہے ملک معاشی ابتری کا شکار اور عالمی اداروں کا قرضدارہے اس لئے اب معاشی بہتری و ترقی کیلئے قرضوں اور مالیاتی خسارے سے نکلنے کے اقدامات ترجیحی بنیادوں پر کرنے ہوں گے جس میں ملک اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ترقی کے راستے پر گامزن ہو اور آگے کی منصوبہ بندی جاری رکھ سکے ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے ملک میں ٹیکس بڑھانے کے بجائے ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے کے عملی اقدامات کرنے ہونگے ناکہ صرف لفظوں اور نعروں کو استعمال کیا جائے۔ تقریباً22کروڑ کی آبادی میں سے ٹیکس دہندہ گان کی تعداد صرف 13لاکھ ہے اس لئے اگر ہم صحیح معنوں میں ٹیکس کا نفاذ کریںاور جس شخص کی آمدنی 3لاکھ سے زیادہ ہو اس کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لیکر آجائیں تو ہماری ٹیکس وصولیاںبغیر ٹیکس بڑھائے 3گنا بڑھ ہو سکتی ہے ۔اسکے بعد ہمیں اپنے پیداواری شعبے پر توجہ دینی ہوگی کیونکہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں اس کا پیداواری شعبہ ریڑ ھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے لیکن ہم نے اسے بالکل نظر انداز کر دیا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے دبائو میں مختلف شعبہ جات میں پیداواری عمل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جن میں خصوصاً انجینئر نگ ،آٹو انجینئر نگ، آئی ٹی و کمیونیکیشن اور دیگر غیر روایتی شعبہ جات ہیں جن میں ہم پیداواری شعبہ کو بڑھانے کے بجائے چنداداروں کی اجارہ داری اورمنافقت کی وجہ سے اسکی راہ میں روڑے اٹکا یء ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 25سالوں سے ہمارے ملک میں صرف ٹیکسٹائل کے خام مال اور فارما سوئیٹیکل کے شعبہ کے علاوہ کوئی بھی شعبہ ابھرا نہیں ہے ۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان دونوں شعبہ کی کمائیوں میںتقریباً ہزار فیصد منافع شمار کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ معیشت یا عام آدمی کو نہیں پہنچتا جبکہ ان شعبوں کی آمدنی کو ہیروئن کی آمدنی سے بھی زیادہ منافع بخش سمجھا جاتا ہے۔ اگر نیت نیک ہو تو کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہوتی جس کی عملی مثال پاکستان ریلوے ہے جو 2013ء تک بالکل تباہ حال ، ماضی قدیم کا قصہ اور کھنڈر کا نمونہ بن چکی تھی لیکن اس کو موجودہ حکومت کے ہی ایک وزیر خواجہ سعد رفیق نے ناصرف چلا کر دکھا دیا بلکہ اس کو منافع بخش اداروں میں بھی شمار کرا دیا ۔ اس وقت پاکستان ریلوے کا منافع تقریباً 40ارب روپے ہے اور ٹرینوں کی حالت بہت بہتر ہو چکی ہے جبکہ ٹرینوںکی روانگی اور آمد بھی معقول حد تک مقررہ وقت پر ہو رہی ہے ۔ اسی طرح اگر نیت ہو تو پی آئی اے، پاکستان سٹیل مل، پاکستان نیشنل شپنگ کاپوریشن جیسے دیگر ادارے بھی اگر کسی اچھے، قابل اور سمجھ دار فرد کے حوالے کئے جائیں تو یہ ادارے نا صرف چل سکتے ہیں بلکہ دیگر کئی ممالک کی طرح منافع بخش بھی بن سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں نجی ائیر لائن کمپنیاں منافع کی طرف جارہی ہیں جبکہ PIA مسلسل نقصان کی طرف۔ ایک ہی ہفتے میں دو خبریں ساتھ ساتھ شائع ہوئیں کہ پی آئی اے نے نقصان کے باعث اپنی نیو یارک کی پروازیں بند کردی ہیں اور پاکستان کی ایک نجی ائیر لائن نے نیو یارک کیلئے اپنی پروازیں شروع کردی ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر نجی ائیر لائن کمپنی کو منافع ہو سکتا ہے تو پی آئی اے کیوں منافع بخش ادارہ نہیں بن سکتا ۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں نہ قابل افراد کی کمی ہے اور نہ وسائل کی کمی ہے بس صرف نیتوں اور اس پر عمل کرنے کی کمی ہے۔ ذمہ دار افراد نے کسی محکمہ میں افراد کا انتخاب کرتے وقت اس ادارہ کی ڈیمانڈ اور فرد کی صلاحیتوں کا خیال کم ہی رکھا ہے۔ یہ بھی دیانتداری نہیں۔ اہم جگہ پر اہل فرد کا تقرر کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اہم منصب پر غلط افراد کے آنے سے ادارہ تباہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ اداروں نے قائم رہنا ہوتا ہے مگر اس چیز کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ہر شعبہ پستی و تباہی کی جانب گامزن ہے۔ ایک اچھی خبر ہے کہ گذشتہ دنوں جاپان میں پاکستانی سفارت خانے کے زیر اہتمام ایک بڑی اہم کانفرنس ہوئی۔ جس میں سو سے زائد جاپانی کاروباری شخصیات اور کاروباری نمائندگان نے شرکت کی اور ان نمائندگان کی اکثریت نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا اس لئے یہ پاکستان کیلئے انتہائی خوش آئند بات ہے اور شاید سی پیک کے ثمرات ہیں کہ جاپان اور اسکے مستحکم و مستند کاروباری ادارے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہاں ہیں اور یہ پاکستان کیلئے باعث اطمینان بات ہے کہ دنیا کی تیسری بڑی معاشی طاقت جس کی کل برآمدات 644.9 ارب ڈالر زہیں اس کے سرمایہ کار پاکستان کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں ۔ پاکستانی سفیر کی عمدہ کاوش ہے جس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ڈی جی شاہجہاں شاہ بھی شریک ہوئے تھے اس لئے یہاں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے سرمایہ کاری کے شعبے اپنی مکمل کارکردگی دکھائیں اور بالخصوص جاپان اور بالعموم تمام دنیا کو یہ باور کرائیں کہ پاکستان سرمایہ کاری کیلئے انتہائی پرکشش ملک ہے ۔اس سے پہلے بھی میں نے اپنے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ جاپان مختلف ممالک میں اپنی بے پناہ سرمایہ کاری کررہا ہے جیسا کہ جاپان کی 2016میںبراہ راست سرمایہ کاری تھائی لینڈ میں 3799ملین ڈالرز، انڈونیشیاء میں 3560 ملین ڈالرز، ملائشیاء میں 2839ملین ڈالرز، فلپائن میں 1450ملین ڈالرز ، ویت نام میں 1360ملین ڈالرز رہیںاوراسی وجہ سے ان ممالک کا جاپان کے ساتھ تجارتی و معاشی حجم بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میںپاک جاپان اکنامک زون بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جس کے لئے جگہ بھی منتخب کر لی گئی تھی ۔ اس وقت بھی پاک جاپان اکنامک منصوبہ کو جاپان اور پاکستان کے درمیان ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا تھا اور جاپانی سرمایہ کاروں نے پاکستان آکر منصوبے پر عملدرآمد کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا مگر وہ منصوبہ نااہلی و لاپرواہی کی نذر ہوگیا ۔ ہمیں یہ بھی کرناچاہیے کہ ترقی یافتہ ممالک کی معاشی ترقی کے اسباب جانیں پھر جو ممالک مختلف ملکوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں انکی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے مدعو کریں اورسرمایہ کاری کے اداروں میں جن افراد کا انتخاب کریں ان کو مختلف ممالک کی زبانوں پر عبور بھی حاصل ہونا چاہیے تاکہ وہاں پر موجود سرمایہ کاروں کو ان کی اپنی زبان میں ترغیب دیں تو یہ سرمایہ کاری اور پاکستان کی معیشت کیلئے اچھا شگون ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک جن میں خصوصاً جاپان ملائیشیا، تھائی لینڈ،سنگا پور حتیٰ کہ بنگلادیش شامل ہیں انکی معاشی ترقی کا جائزہ لیں اور ساتھ ہی جاپان میں موجود ہمارے سفیر نے جس محنت سے کانفرنس کی ہے اس سے استفادہ کیلئے ہمارے اقتصادی اداروں کے ذمہ داران اپنے اختلافات کچھ عرصہ کیلئے ختم کرکے اس پر ایک تھنک ٹینک بنائیں اوراس کو عملی صورت میں لاگو کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی وقت گزرا نہیں ہے ہم اب بھی معاشی ترقی کی جانب قدم اٹھا سکتے ہیں بس ہمیں اپنی معاشی ترجیحات کو درست سمت میں لانا ہوگاکیونکہ پاکستان ہے تو ہم بھی ہیں اور ہماری آنیوالی نسلوں کا مستقبل بھی پاکستان سے وابستہ ہے ۔

مزیدخبریں