حافظ غضنفرعزیز
جمعیۃ علماء اسلام اپنے قیام کے روز اول سے ہی اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہدمیں مصروف عمل ہے جس کیلئے امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری سے مفکر اسلام مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا عبد اللہ درخواستی تک تمام اکابرین جمعیۃ علماء اسلام نے قانون اور دستور کے دائرے میں رہ کر جدوجہد کی ، اپنی جدوجہد سے اس قوم کے لئے عظیم کامیابیاں حاصل کیں، اسلامی دستور کی تشکیل میں زریں کردار ادا کیا، قادیانی مسئلہ کو حکمت وبصیرت سے حل کیا، مستقبل میں آئین وقانون کی اسلامائزیشن کے حوالے سے ایک آئینی طریقہ کار تشکیل دیا جس کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کی صورت میں ایک دستوری ادارہ کے ذریعے بقیہ جدوجہد کو آگے بڑھانے کیلئے راہ عمل متعین کی گئی ، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قانون سازی کے 43سال گزرجانے کے بعد بھی آج تک اس نہج پر قانون سازی کا آغاز نہیں کیا جاسکا دستور پاکستان کے اس اولین تقاضے کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے اور ہمارا سنجیدہ طبقہ اس کی طرف توجہ کرنے کو بھی تیار نہیں ہے ۔ جمعیۃ علماء اسلام کی جدوجہد جاری ہے گزشتہ اور موجودہ پارلیمنٹ میں سیکولر طبقے کی جانب سے پاکستان کی اسلامی شناخت کو تبدیل کرنے، ناموس رسالت ؐقانون کے خاتمے، قادیانیوں کے حوالے سے دستوری شقوں کی تبدیلی کے لئے کی جانے والی سازشوں کا جمعیۃ علماء اسلام نے دیگر دینی قوتوں کے ساتھ مل کر سدباب کیا ، اس کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے وقتا فوقتا کی جانے والی غیر اسلامی قانون سازی کے خلاف بھی جمعیۃعلماء اسلام نے اتحادی جماعت ہونے کے باوجود جدوجہد کی اورکامیابی حاصل کی، جمعیۃ علماء اسلام نے ہر دینی تحریک میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا ہے، اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے ماہ ربیع الاول کی مناسبت سے جمعیۃ علماء اسلام ضلع لاہور کے زیر اہتمام 9دسمبر بروز اتوار ایوان اقبال ایجرٹن روڈ لاہور میں قومی سیرت مصطفی ؐکانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، جس کے مہمان خاص ملک کے نامور سیاستدان جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی امیر،پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن ہونگے، اس کے علا وہ جمعیت علماء پاکستان کے صدر پیر اعجاز ہاشمی ، جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، جمعیۃ اہلحدیث کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر ، جمعیۃ علما ء اسلام سمیع الحق گروپ کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی، ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبد الغفور حیدری، شاہین ختم نبوت مولانا اللہ وسایا، مجلس احرار اسلام پاکستان کے نائب امیر مولانا سید کفیل شاہ بخاری ودیگر مہمانان گرامی تشریف لارہے ہیں، جمعیۃ علماء اسلام ضلع لاہور کے امیر شیخ الحدیث مولانا محب النبی اپنی پیرانہ سالی میں اس کانفرنس کے ذریعے اتحاد امت کے لئے کوشاں ہیں ان کے ساتھ اس کانفرنس کے جملہ امور کی نگرانی اور انتظام وانصرام ضلعی سیکرٹری جنرل حافظ اشرف گجر کررہے ہیں۔
ماہ ربیع الاول کو حضورؐ کی ذات گرامی کے ساتھ ولادت، نبوت، ہجرت اور وفات ووصال چار حوالوں سے مناسبت حاصل ہے ان چاروں مناسبتوں کے باعث اس ماہ میں آپؐ کا ذکر خیر اور اظہار محبت کثرت سے کیا جاتا ہے ، ربیع الاول کے مہینے کی مناسبت سے اس کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مقصد ملت اسلامیہ پاکستان کو اتحاد امت کا پیغام دینا اور یہ بات باور کرانا ہے کہ حضورؐ کے مبارک نام پر یہ امت کل بھی متحد تھی آج بھی متحد ہے اورآئندہ بھی متحد رہے گی، اس کانفرنس کے اغراض ومقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ حضورؐ کی سیرت کے ذریعے آپ ؐ کے لائے ہوئے اسلام کے عادلانہ اور منصفانہ نظام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کریں گے، دنیا میں رائج نظاموں میں سے کوئی نظام حضورؐ کے لائے ہوئے نظام کا مقابلہ نہیں کرسکتا، قیام پاکستان کا بنیادی مقصد بھی حضورؐ کے نظام کے لئے پاکستان کو ایک تجربہ گاہ بنانا تھا لہٰذا اگر آج تک کسی بھی وجہ سے اس ملک میں محمدی نظام نافذ نہیں کیا جاسکا تو اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے اور اس ملک کی مقتدر قوتوں سے اس نظام کے نفاذ کا مطالبہ اور مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے بدقسمتی سے 70سال گزرنے کے باوجود آج تک یہ بیکار بحثیں چھیڑی جارہی ہیں کہ اس ملک کے قیام کا مقصد کیا تھا، ہمارے بزرگوںنے قربانیاں کس مقصد کیلئے دی تھیں؟ ہماری عورتیں کیوں بیوہ ہوئی تھیں؟، ہمارے بچے کیوں یتیم ہوئے تھے؟، لاکھوں جانوں کی قربانی کس مقصد کے تحت دی گئی تھی ؟آج تک اس بحث کو جاری رکھنا اس قوم کی بدقسمتی ہی قرار دیا جاسکتا ہے، ان بحثوں کی آڑ میں ملت اسلامیہ پاکستان کی آرزؤں کا خون کیا جارہا ہے اور آج تک اس قوم کو سیرت رسول ؐ کی روشنی میں نظام اسلام نہیں دیا جاسکا ، ملک کی سیاسی اشرافیہ، جاگیردار، وڈیرے، بیوروکریسی، سول وملٹری ادارے سب مل کر اس حوالے سے ذمہ دار ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کی قربانیوں کے احترام میں اسلام کے عادلانہ و منصفانہ نظام کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں ۔
اس کانفرنس کا مقصد یہ بھی ہے کہ اس وقت ملک میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیںمغرب کے پروردہ طبقات مغربی نظریات کی جگالی کررہے ہیں ملک میں مغربی تہذیب وتمدن کو رواج دیا جارہاہے نوجوان نسل کو خوبصورت نعروں کے ذریعے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، نئے پاکستان کے نام پر فحاشی وعریانی کو پھیلایاجارہاہے نسل نو کو گمراہ کیا جارہا ہے اس کانفرنس کے ذریعے ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مغربی نظام کو قبول نہیں کیا جائے گا جمعیۃ علماء اسلام اس ملک میں صرف سیاسی میدان میں ملک کا تحفظ نہیں کررہی بلکہ وہ تہذیب وتمدن اور اسلامی ثقافت وکلچر کی بقاء کی جنگ بھی لڑرہی ہے ہم مغرب کے کلچر کو کسی صورت پاکستان پر مسلط نہیں ہونے دیں گے پاکستان کو مغرب کی طرح مادر پدر آزاد معاشرہ بنانے والی ہر قوت کی مزاحمت کریں گے نسل نو کے ایمان وعقائد کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے نظریات وافکار کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری ہے مغرب کی پروردہ کسی قوت کو اس ضمن میں ملک کا نظریاتی ، فکری اور ثقافتی منظرنامہ تبدیل نہیں کرنے دیں گے بلکہ اسلامی تہذیب وثقافت کا تحفظ کریں گے، جمعیۃ علماء اسلام تمام دینی طبقات کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ وہ اس میدان میں اس کے شانہ بشانہ ہوں اور ان تمام قوتوں کا متحد ہوکرایک صف میں کھڑے ہوکر مقابلہ کریں جو پاکستان کا کلچر اور ثقافت اور تہذیب وتمدن بدلنا چاہتے ہیں نوجوان نسل کو لہو ولعب اورناچ گانے میں مصروف کرکے ہمارا مستقبل تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
اس کانفرنس کے اغراض ومقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم حضورؐ کی ذات مبارکہ سے متعلق روایتی جھگڑوں میں پڑے بغیر سیرت کو پھیلائیں اور آپ ؐکی سیرت کو عام کریں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سیرت کو فرقہ وارانہ اندااز میں منانا چاہتے ہیںاس طرز عمل اور طرز فکر کو ختم کرنا ہوگا، ہمارا فرض ہے کہ ہم سیرت کو سمجھیں، سیرت سے حاصل ہونے والے اخلاقی، معاشی، سیاسی اورمعاشرتی زندگی سے متعلق اسباق کو سمجھ کر انہیں اپنی دعوت کا ذریعہ بنائیں ، اس کے علاوہ آج امت مسلمہ کو دیگر بحرانوں کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑے اخلاقی بحران کا سامنا ہے، مسلمانوں کے اخلاق کی کمزوری، اخلاقی فضائل وخصوصیات کے فقدان نے مسلمانوں کے بارے میں دنیابھر میں ان کے تاثر کو خراب کیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرت رسولؐ کی روشنی میں اپنے اخلاق کی اصلاح کریں ۔ امانت، صداقت، ایفائے عہد، نرم گوئ، شکر ، صبر، توکل اور قناعت جیسے اخلاقی فضائل سے آراستہ ہوں تاکہ مسلمانوں کے اخلاق کی پاکیزگی کی گواہی اپنوں کے ساتھ پرائے بھی دے سکیں اور یوں دنیا میں دین اسلام کی دعوت عام ہوسکے، کیونکہ دعوت کی اشاعت کی بنیاد اخلاق ہوتی ہے جب کسی قوم کے اندر سے اس کی اخلاقی بنیاد نکل جاتی ہے اور وہ اپنی اخلاقی اساس سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے تو اس کی دعوت کی اشاعت رک جاتی ہے جب تک ہم اپنے اخلاق کی اصلاح کیلئے حضورؐ کی ذات گرامی سے رہنمائی نہیں لیں گے آپ ؐ کی سیرت طیبہ کو اختیار نہیں کریں گے اس وقت تک ہمارا اخلاقی زوال کے ساتھ ساتھ سیاسی زوال بھی ختم نہیں ہوگا۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیرت طیبہ کی روشنی میں اپنے سیاسی ،معاشرتی، اخلاقی، اور تمدنی نظاموں کو تشکیل دیں، سیرت رسولؐ کو اپنی تہذیب بنائیں ، مغرب کے نظام کے ساتھ اس کی تہذیب کو بھی رد کریں، سیرت کی روشنی میں اپنے اخلاق آراستہ کریں، اپنے اندر شائستگی، سنجیدگی، وقار، دور اندیشی، فراست پیدا کریں، جمعیۃ علماء اسلام اسی کی علمبردار ہے اور اسی کی پوری امت مسلمہ کو دعوت دیتی ہے، قومی سیرت مصطفیؐ کانفرنس کا پیغام بھی یہی ہے، دعا ہے کہ یہ کانفرنس اپنے اغراض ومقاصد میں کامیاب ہو اور بارگاہ رب العزت میں قبولیت تامہ حاصل کرے۔ آمین یا رب العالمین