سیاست میں کسی جماعت میں کٹھن اور مشکل دور میں ثابتِ قدم رہنے والے افراد کو جماعت میں بہت عزت ملتی ہے جبکہ ان حالات میں پارٹی اور پارٹی لیڈر شپ پر تنقید کرنیوالے پارٹی اور عوام دونوں کی نظروں میں اپنا مقام کھودیتے ہیں۔ مجھے اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب 2014ء میں میاں محمد نواز شریف کے خلاف پی ٹی آئی نے دھرنا دیا اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ۔ اس وقت مخدوم جاوید ہاشمی جو پی ٹی آئی کے صدر اور دو حلقوں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور پی ٹی آئی یوتھ کی جان بن چکے تھے۔ انہوں نے صدارت اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا اور جمہوریت کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے گھر بیٹھنا مناسب جانا کیونکہ ان کی ساری زندگی بحالی جمہوریت کی جدوجہد میں متعدد بار جیل گئے اس سے پیشتر انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) چھوڑ دی اس وقت مسلم لیگ (ن) صوبائی اقتدار کے عروج پر تھی اور قومی اسمبلی کی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ جاوید ہاشمی باغیانہ ذہنیت کے مالک ہیں جیسے کہ دنیا کے عظیم سیاسی لیڈر نیلسن مینڈیلا، جاوید ہاشمی کی بدولت جمہوریت تو بچ گئی مگر اس وقت میاں نواز شریف کے خلاف پاناما اسکینڈل سامنے آ گیا۔ میاں محمد نواز شریف نے اس وقت ا پنے انتہائی قابلِ اعتماد ساتھی شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نافذ کر دیا۔ شاید خاقان عباسی نے پارٹی اور پارٹی لیڈر شپ کے ساتھ وفاداری کی عظیم مثال قائم کی اس وقت میاں نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز شریف کو اپنا سیاسی جانشین کے طور پر متعارف کروایا۔ مریم نواز میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ پائی جاتی ہیں جو ایک منجھے ہوئے سیاستدان میں پائی جاتی ہیں کیونکہ ان کی سیاسی پرورش ان کی والدہ محترمہ کلثوم نواز نے جو سیاست پر مکمل عبور رکھتی تھیں باوجود اس کے وہ ایک گھریلو خاتون تھیں ان کی جرأت و بہادری کا اندازہ اس دور آمریت کے واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جب وہ بحالی جمہوریت تحریک کے دوران جب ان کی گاڑی کو لفٹر کے ذریعے اٹھا کر فضا میں بلند کر دیا گیا اس وقت ان کے ساتھ گاڑی میں جاوید ہاشمی اور بیگم تہمینہ دولتانہ بھی موجود تھیں۔ اس وقت بین الاقوامی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے اس واقعہ کو بے پناہ کوریج دی اور بیگم کلثوم نواز کی جرأت و بہادری کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے آئرن لیڈی کا خطاب دیا۔ مریم نواز کی نامزدگی کے بعد میاں محمد نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی جس کو میاں صاحب نے سب سے زیادہ عزت و احترام دیا ا ور ان کے حلقوں میں ریکارڈ فنڈز دئیے۔ انہوں نے ہی میاں نواز شریف اور مریم نواز پر تنقید کے نشتر برسانے شروع کر دئیے لیکن شائد ان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ سیاست ایک عوامی ایکسپریس ٹرین ہے جو کسی کا انتظار نہیں کرتی اور وہ تنہا رہ جاتا ہے۔
؎تعین وقت ہوتا ہے، عشق کی نمازوں کو
ادا نکل جائے تو قضا بھی چھوٹ جاتی ہے
حالانکہ مریم نواز کے مشوروں اور آنے سے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کاگراف اپنی بلندی کی انتہا کو چھونے لگا اس مشکل گھڑی میں جاوید ہاشمی میاں نوازشریف کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے کیونکہ جمہوری پسند انقلابی لیڈر ہیں جن کی جدوجہد کو اس وقت عظیم سیاسی لیڈر نیلسن مینڈیلا نے بھی خراج تحسین پیش کیا۔
مشرف دور میں جاوید ہاشمی نے طویل جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور پارٹی کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے میں آکسیجن ٹینٹ کا کردارادا کیا جبکہ اس کے بعد آنے والے دور میں اپوزیشن لیڈر کسی اور کو بنایا گیا جس کو جاوید ہاشمی نے تسلیم کیا۔ جاوید ہاشمی کی شخصیت ایسی ہے کہ بابائے صحافت مجید نظامی مشرف دور میں 2 بار ان کو ملنے جیل گئے۔ (NBA) میں ان کی تاریخ پر بھی گئے وہ آج بھی میاں نوازشریف کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یہاں میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں ’’قربانی دیکھنی ہو تو جاوید ہاشمی ہوتو جاوید ہاشمی ، وفاداری دیکھنی ہو تو شاہد خاقان عباسی، اور وفاداری نبھانی ہو تو میاں برادران کو دیکھیں‘‘