حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی کی یادیں

حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدری مرحوم کی آج چوبیسویں برسی منائی جا رہی ہے۔ ان کا انتقال نودسمبر کو ہوا تھا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے حکیم عنایت اللہ نسیم صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ 1990 میںحکیم راحت نسیم نے مجھے دعوت دی کہ سوہدرہ میں آئوں جہاں ایک خصوصی تقریب ہونا تھی۔ میں مقررہ تاریخ پر سوہدرہ پہنچا تو مجھے محترم حکیم عنایت اللہ نسیم کے ساتھ سٹیج پر جگہ دی گئی۔ یہ دن ایک یادگار دن کی طرح میری یادوں کی آئینے میں جھلکتا رہتا ہے ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ مولانا ظفر علی خان کی مجھ پر شفقت اتنی زیادہ تھی کہ آج میں شہرت کے جس مقام پرکھڑا ہوں ۔ مولانا ظفر علی خان نے عنائت اللہ صاحب کو ہدایت کی کہ وہ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ کے تعلیمی ادارے میں داخلہ لے لیں ۔ قادیانیت سے دشمنی کا پہلا بیج عنائت اللہ صاحب کے دل میں مولانا ہی نے بویا تھا جو بعد میں ایک سایہ دار شجر بن گیا ۔ جب عنایت اللہ نسیم جب سوہدرے سے علی گڑھ روانہ ہوئے تو مولاناظفر علی خان نے علی گڑھ کی تہذیبی قدروں اور اسلام کیلئے قربانی دینے کے جذبے کو ان کی رگ و پے میں اتار دیا تھا ۔ عنایت اللہ نسیم علی گڑھ تحریک میں اس وقت شامل ہوئے جب ہندو اور انگریز مسلمانوں کے خلاف حملہ آور ہو رہے تھے ، اور مذہبی زاویے سے مسلمانوں کو آریہ سماجیوں کے علاوہ عیسائیوں اور قادیانیوں کی اسلام دشمن پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ عنایت اللہ نسیم تینوں طاقتوں کے خلاف محاذ بنا کر زبردست کامیابیاں حاصل کیں ۔ ان کو مولاناظفر علی خان کا یہ بیان یاد تھا کہ قادیانیت کا فتنہ انگریز حکومت نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے برپا کیا ہے۔ یہ اعزاز عنایت اللہ نسیم کو حاصل ہوا کہ وہ مولانا کو لاہور سے علی گڑھ لائے اور ان سے ایک ایسی تقریر کروائی کہ اس کے بعد قادیانی مفسدین کو یونیورسٹی ، طبیہ کالج یا کسی اور ادارے میں کھلم کھلا شر پھیلانے کی جرأت نہ ہوئی۔ قادیانی فتنہ کی حوصلہ شکنی کیلئے عنائت اللہ نسیم لاہور میں علامہ اقبال سے بھی ملے اور انہیں دعوت دی کہ وہ مسلم یونیورسٹی میں آکر قادیانیوں کے عقیدے کا پردہ چاک کریں ۔ علامہ اقبال ان دنوں شدید بیمار تھے ۔ انہوں نے علی گڑھ جانے پرمعذرت کرتے ہوئے ایک بے حد با معنی اور پر زور میمورنڈم ٹائپ کروایا اور اس پر دستخط کرنے کے بعد عنائت اللہ نسیم کو ہدایت کی کہ وہ اس میمورنڈم پرمولانا ظفر علی خان کے دستخط بھی کروالیں۔ انہوں نے علامہ اقبال کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مولانا ظفر علی خان کے ساتھ میمورنڈم کے ایک طرف علمائے امت اور دوسری طرف اکابرین ملت کے دستخط بھی کروادئیے اور پھر اسکی بہت سی نقول بنوا کریونیورسٹی میں تقسیم کر دیں ۔ ان ہی دنوںمیں وائس چانسلر نے قادیانی ظفر اللہ خان کی علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک تقریر کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ عنایت اللہ نسیم کے پھیلائے میمورنڈم نے مسلمان طلباء کے جذبات بھڑکا دئیے لہٰذا وائس چانسلر نے سر ظفر اللہ کو لکھا کہ وہ یونیورسٹی تشریف نہ لائیں اوران کا دعوت نامہ منسوخ کر دیا۔
فروری1938ء میں عنایت اللہ نسیم کو قائداعظم کی خدمت میں حاضری کا شرف نصیب ہوا جب وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں طلباء کی دعوت پر آئے تھے ۔انہیں قائداعظم نے پہلی ملاقات کا اعزاز مولانا ظفر علی خان کے وسیلے ہی سے لکھنؤ میں ملاتھا ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء نے قائداعظم سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے انکی بگھی سے گھوڑے نکلوا کر بگھی کو اپنے شانوں پر کھینچ کر یونیورسٹی لائے ۔ بگھی کھینچنے والے طلباء میں عنایت اللہ نسیم بھی پیش پیش تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد ایک انٹرویو میں عنایت اللہ نسیم نے بتایا کہ مسلمان کی زندگی میں رسول اکرم کی ذات گرامی سب سے اہم ہے لیکن بیسویں صدی کے سیاسی راہنمائوں میں قائداعظم کی ذات نادر اور حیرت انگیز تھی۔ انکی تین اصول دیانت امانت اور استقلال زندگی کی مصیبتوں کو دور ر کے کامیابی اور کامرانی کا سورج طلوع کر دیتے تھے۔ برصغیر میں قائداعظم کی بے لوث دیانت، امانت اور استقلال کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ان کا لہجہ پُراعتماد، بات ٹھوس اور نتیجہ ہمہ جہت ہوتا تھا۔ وہ لگی لپٹی کہنے کے قائل نہیں تھے۔ پٹنہ کے ایک اجلاس میں فیروز الدین احمد نے قائداعظم زندہ باد کا پہلا نعرہ لگایا۔ عنایت اللہ نسیم کا اعزاز کچھ کم نہیں کہ وہ اس ’’عطائے لقب‘‘ کے عینی شاہد تھے اور فیروزالدین احمد کے نعرے پر زندہ باد کہنے والوں میں بھی شامل تھے۔ مسلم لیگ لکھنو سیشن 1937ء کے فوراً بعد یو پی کے ضلع بجنور میں ضمنی انتخاب کی مہم سامنے آئی جہاں مسلم لیگ کو مسلم عوام کی نمائندگی کیلئے پہلا اہم چیلنج درپیش تھا کیونکہ اس علاقے میں کانگریس کے ہم نوا علمائے دیو بند کا بہت اثر تھا۔ مولاناظفر علی خان، حسرت موہانی اور دوسرے مسلم رہنما انتخابی مہم کیلئے وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ اس انتخابی جلسے میں عنایت اللہ نسیم نے جو تقریر کی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرار احمد سہاروی نے یوں لکھا کہ اس وقت نسیم صاحب کی طبعیت میں بڑی تیزی اور طراری تھی تقریر بھی اور گفتگو بھی بڑے زور دار طریقے سے کر رہے تھے۔ اس گفتگو میں بھی زندگی کا رویہ شاعرانہ سیاسی اور دینی رنگ لئے ہوئے تھا۔ یہ سارے تقریری رنگ آخری وقت تک ان کی زندگی میں شامل رہے۔ اس زمانے میں سوشلسٹ لیڈر بھی اپنا فلسفہ آگے بڑھا رہے تھے۔ دوسری طرف اسلامی تحریک کے رہنما تھے دونوں میں زبردست مقابلہ ہوتا تھا۔ نسیم صاحب دائیں بازو کے سرفروش مجاہدین بھی شاملرہے اور ہمیشہ کامیاب رہے۔ 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک میں قائداعظم نے جو تقریر کی۔ عنایت اللہ نسیم اس اجلاس میں بھی شریک تھے۔ اس تقریر نے ان پر اتنا اثر کیا کہ وہ بالکل بدلے ہوئے سیاسی کارکن بن گئے۔ قائداعظم کی تقریر کے الفاظ انکے دل پر نقش ہو چکے تھے اور یہ نقش ان کی وفات تک انکے دل پر نقش رہے۔ حکیم صاحب تو اس دنیا سے جا چکے ہیں لیکن …ع
یادیں ان کی روز ہی آتی رہتی ہیں

ای پیپر دی نیشن