پچھلے ہفتے ریاست مدینہ اور مواخات کے حوالے سے لکھی گئی،، آج کی کہانی،، کو قارئین نے نہایت عمدہ تجاویز اور تبصروں سے نوازا ہے، جن کا خلاصہ ہے کہ خرچ کے معاملہ میں ہم پاکستانیوں کا ہاتھ خاصا کھلا ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ ہو یا نام و نمود کا موقعہ ، ہم آگا پیچھا نہیں دیکھتے اور بہت دور تک چلے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے سیزن اور عیدین کے مواقع پر بیرون ملک سے بھجوائے جانیوالے زرمبادلہ کی مالیت دگنی ہو جاتی ہے اور پھر اللہ کی راہ میں خرچہ کی تو کوئی حد ہی نہیں مگر یہ اب انفرادی ایکٹویٹی، اجتماعیت کے عنصر سے یکسر عاری،نتیجہ یہ کہ اربوں کی بانٹ کا بیشتر حصہ غیر مستحق اور پیشہ ور لے اڑتے ہیں۔ اور اس داد و دہش کے اثرات سوسائٹی پر دکھائی نہیں دیتے۔ ریاست مدینہ اور مواخات کے نام پر اگر سرکار صاحبان ثروت کے تعاون سے فنڈ کی درست تقسیم کا اہتمام کر سکے تو یقین جانئے ملک میں غربت آدھی رہ جائیگی۔