اسلام آباد (آئی این پی) سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر روان ایدری سنگھے نے کہا ہے کہ سارک خطہ میں تجارت اور سرمایہ کاری کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے، اس سے بھر پور استفادہ کیلئے علاقائی انضمام اور ریجنل فورم کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کے عوام کی خواہشات پر پورا اترا جا سکے۔ انہوں نے یہ بات 34 ویں سارک چارٹر ڈے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی جو اسلام آباد میں منایا گیا۔ تقریب میں سینئر سرکاری حکام، دانشوروں، پالیسی سازوں اور کاروباری برادری کی اعلی قیادت نے شرکت کی۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے روان ایدری سنگھے نے کہا کہ خطے میں خوشحالی اور معاشی استحکام کے لئے اس پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی حقیقی صلاحیت کا بھر پور استعمال کریں تو آئندہ دہائی میں یہ خطہ ڈویلپمنٹ انڈکس میں بہتر مقام حاصل کر سکتا ہے جس میں اس وقت یہ بہت پیچھے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر بھارت اور پاکستان اعتماد کے فقدان، مصنوعی تجارتی رکاوٹوں اور پیچیدہ و غیر شفاف نان ٹیرف رکاوٹوِں پر قابو پالیں تو ان کے درمیان باہمی تجارت 37 بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے جو اس وقت صرف 2 ارب امریکی ڈالر ہے۔ کرتار پور کوریڈور کھولنے کے وزیر اعظم عمران خان کی اقدام کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے بد اعتمادی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ صرف تجارت ہی دونوں جوہری پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرسکتی ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ جلد یا بدیر سارک ممالک ان کمزوریوں پر قابو پالیں گے اور خطے کو درپیش مشترکہ مسائل کے حل کیلئے راہ ہموار کرتے ہوئے سارک کو دوست پڑوسی ممالک کی کامیاب تنظیم میں تبدیل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ خطے کا نجی شعبہ جنوبی ایشیا کے سماجی و معاشی انضممام کیلئے پر عزم ہے۔ سارک کو دیگر تنظیموں کے ساتھ موازنہ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ خطے کے منفرد تاریخی سیاق و سباق اور جنوبی ایشیا کی انفرادیت کو سمجھتے ہوئے ہمیں سارک کے نظریہ کو اپنانے اور مثبت سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سارک چیمبر کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے کہا کہ جنوبی ایشیا کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے کیونکہ فی کس جی ڈی پی کے اعتبار سے یہ خطہ سب صحارن افریقہ کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے کم ترقی یافتہ علاقہ ہے جبکہ قوت خرید کے حساب سے یہ عالمی اوسط سے تین گنا نیچے ہے اور باقی دنیا کے مقابلے میں سب سے زیادہ غریب لوگ یہاں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سارک رکن ممالک کو نان ٹیرف رکاوٹوں اور بزنس ٹو بزنس روابط میں مشکلات کے خاتمے کی ضرورت ہے۔