قومی احتساب بیورو (نیب)کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ ارباب اختیار کو احساس دلانے میں کامیاب ہوگیا کہ جو کرپشن کرے گا وہ بھرے گا اور سب کا احتساب ہوگا ،نیب ڈکٹیشن لے گا نہ انتقامی کارروائی کرے گا، کرپشن کرنے والے ہر شخص کو حساب دینا ہو گا، ملک 95ارب ڈالر کا مقروض ہے، کہاں خرچ ہوئے، کیسے خرچ ہوئے، اگر پوچھا جائے تو کونسی گستاخی ہوگئی ،کرپشن کی سزا موت ہو گئی توملکی آبادی کم ہو جائے گی،اب ظل الہی کا دور گزر چکا، عام آدمی کو بھی پوچھنے کا حق ہے، ادارے کی وفاداری صرف ریاست کے ساتھ ہے،موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مکمل تعاون کیا اور انہوں نے نیب کو خود مختار ادارہ تصور کیا اور اس کی حاکمیت اور خود مختاری کو اور اس کے آزادانہ طریقہ کار کے راستہ میں کسی قسم کی اس وقت تک مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی ۔ان خیالات کا اظہار چیئرمین قومی احتساب بیورو جسٹس (ر) جاوید اقبال نے انسداد بد عنوانی کے عالمی دن کے موقع پر ایوان صدر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مکمل تعاون کیا اور انہوں نے یہ نہیں کہا کہ نیب کے دانت نکال دیئے جائیں، نیب کے ناخن تراش دیئے جائیں اور نیب کی حجامت کر دی جائے اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ انہوں نے نیب کو خود مختار ادارہ تصور کیا اور اس کی حاکمیت اور خود مختاری کو اور اس کے آزادانہ طریقہ کار کے راستہ میں کسی قسم کی اس وقت تک مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی،میں نے روز اول سے یہ بات طے کر دی تھی اور ارباب اختیار کو سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی کہ نیب ڈکٹیشن نہیں لے گا اور نیب انتقامی کارروائی نہیں کرے گا،اگر آپ کے سیاسی اختلافات ہیں تو باہر بہت سے فورم موجود ہیں آپ اپنے اختلافات وہاں جا کر حل کریں ،کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں نہ نیب کا کبھی حصہ تھا اور نہ نیب کا کبھی حصہ ہو گا،میں نے کئی مواقع پر یہ وضاحت کی ہے کہ نیب کا کسی گروپ سے، کسی گروہ سے ، کسی سیاسی جماعت سے ، کسی سیاست سے اور کسی فرد سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر نیب کا تعلق ہے اور نیب کی وفاداری ہے تو ریاست پاکستان کے ساتھ ہے ۔حکومت اور ریاست میں بنیادی فرق ہے جو سب کو ذہن نشین کرنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو پاکستان نے قیامت تک قائم و دائم رہنا ہے حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ حکومتوں نے آئین کے تحت آنا ہے اور آئین کو تحت انہیں جانا ہے اس لیے کسی حکومت وقت کو یہ احساس ناگواری نہیں ہونا چاہیے کہ نیب میں تابعداری کا جزوذرا کم ہے یا یہ حکومت وقت کی طرف بھی کیوں دیکھ رہا ہے ۔اگر آپ گذ شتہ ادوار کی کرپشن کو دیکھ سکتے ہیں تو آپ پر کوئی آئینی یا قانونی قدغن نہیں ہے کہ آپ حکومت وقت کی کسی کرپشن کو نہیں دیکھ سکتے یا اس کو نظر انداز کرنے کو ئی جواز آپ کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتقام کا تو کسی قسم کا کوئی سوال نہیں، سیا ست کا کسی قسم کا کوئی سوال نہیں لیکن آپ ایک لمحہ کے لیے سوچیں کہ ملک 95 ارب ڈالرز کا مقروض ہے،95 ارب ڈالرز ایک بڑی خطیر رقم ہے اور جب آپ زمینی حقائق کو دیکھتے ہیں ، آپ مختلف شہروں کو دیکتے ہیں، آپ ہسپتالوں کو دیکھتے ہیں ، آپ یونیورسٹیوں کو دیکھتے ہیں ، آپ کالجز کو دیکھتے ہیں اور مجھے تو تمام صوبوں میں جانے کا اتفاق ہوا، بڑے شہروں میں اور چھوٹے شہروں میں جانے کا اتفاق ہو ا مجھے تو یہ 95 ارب ڈالرز نظر نہیں آئے کہ آخر یہ رقم کہاں خرچ ہو گئی۔ اگر نیب نے یہ پوچھ لیا کہ 95 ارب ڈالرز کیسے خرچ ہوئے تو تقریب میں موجود افراد بتائیں کہ کیا اس میں کوئی گستاخی ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 30 یا35 سال جو لوگ صاحب اقتدار رہے وہ شائداس بات کو فراموش کر گئے ہیں کہ یہ عہد مغلیہ نہیں ہے ، یہ مغلیہ شہنشاہوں کا دور نہیں ہے ، فرمان پاس کرنے کا، فرمان دینے کا، حکم دینے کا اور ظل الہی کے وہ دور ختم ہو چکے ہیں ،اب تو ایک عام آدمی بھی آپ سے پوچھ سکتا ہے کہ آپ نے ایسے کیوں کیا اور نیب کا تو یہ قانونی حق ہے کہ وہ آپ سے پوچھے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی سے پوچھا ہے یہ گذارش سامنے رکھ کر پوچھا ہے کہ کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے لیکن اس میں اتنا حساس بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اگر آپ سے ایک بات پوچھی گئی ہے تو جواب دینا آپ کے فرائض میں شامل ہے اور پوچھا بھی صرف اس وقت ہے جب دیکھا ہے کہ پانچ لاکھ کی جگہ50 لاکھ روپے خرچ ہوئے اور 50 لاکھ کی جگہ 50 کروڑ روپے خرچ ہوئے اور 50 کروڑ کی جگہ اربوں میں خرچ ہوا جس کا نہ تو کوئی جواز تھا اور نہ وجوہات تھیں کہ وہ مطمئن کر سکیں کہ ہم نے ایسا کیوں کیا۔ سوائے اس کے کہ ہم اس عہدے پر متمکن تھے اور ہم یہ کر سکتے تھے لیکن میرا خیال ہے کہ گذ شتہ ایک سال کے دوران جو ارباب سکینڈل تیار ماضی میں تھے اور جو اب ہیں ان کو احساس دلانے میں کامیاب ضرور ہوا ہوں کہ جو کرے گا وہ بھرے گا اور ہر آدمی جس نے کرپشن کہ ہے اس کو آ کر حساب دینا پڑے گا۔ اس لیے کہ یہ غریب عوام کا پیسہ ہے۔ آپ کسی وقت بلبلاتے اور غریب لوگوں کو دیکھیں ان کی زندگی کو دیکھیں ، ان کے رہن سہن کے طریقوں کو دیکھیں ، آپ کروڑوں لوگوں کا غربت کی لکیر سے نیچے رہنا دیکھیں اور آپ ان لوگوں کو دیکھیں جن کے پاس چند سال پہلے 70 سی سی بائیک تھا اور اب ان کے دبئی میں ٹاور ہیں۔ اگر نیب نے یہ پوچھ لیا کہ یہ ٹاور کہاں سے آئے ہیں تو اس میں کون سی گناہ کہ بات ہے، یا اس میں کون سا ایسا جرم ہے اور اگر ان کے خیال میں یہ جرم ہے تو پھر میرا خیال ہے یہ جرم تو ہوتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے خلاف جارہانہ اور مذموم پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا تا کہ لوگوں میں مایوسی پھیلے لیکن جو عناصر اس میں مصروف ہوں میں صرف انہیں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی عوام اتنی معصوم اور سادہ لوح نہیں ہے کہ وہ اب اچھے اور برے میں تمیز نہ کر سکیں۔ انہیں پتہ ہے اجالا کیا ہے ، اندھیرا کیا ہے، تیرگی کیا ہے، کون اجالا دور کر رہا ہے اور کون اندھیرے پھیلا رہا ہے،کون مایوسیوں کی گھٹائیں برسا رہا ہے اب ایسا نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کہا گیا جاوید اقبال کے آنے کے بعد بیوروکریسی بڑی پریشان ہے ،میں نے بیوروکریسی کو کئی دفعہ یقین دلایا ہے اور آج دوبارہ یقین دلاتا ہوں میں خود بیوروکریٹ رہا ہوں۔ میں سیکشن افسر رہا، ڈپٹی سیکرٹری رہا اور سیکرٹری رہا پھر اس کے بعد سیشن جج ، پھر ہائی کورٹ کا جج اور پھرسپریم کورٹ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے قائم قام چیف جسٹس آف پاکستان کے رتبے تک پہنچایا،میں کوئٹہ بلوچستان سے تعلق رکھتا ہوں ،میں ٹاٹ کے اسکولوں پر پڑھا ہوا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نظام حکومت میں بیوروکریسی کا کردار اہم ترین کردار ہے ، بیوروکریسی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن اگر ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف ہو جائے تو تھراپی تو کرنی پڑتی ہے ۔کبھی کسی بیوروکریٹ کے بارے میں کوئی غلط اقدام نہیں اٹھایا جائے گا،ہماری بیوروکریسی میں بہت قابل منظم ہیں ، بہت قابل بیوروکریٹ موجود ہیں ، میری صرف ایک استدعا ہے کہ ہم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نہ بنیں، ہماری وفاداری صرف اور صرف ریاست پاکستان کے ساتھ ہونی چاہیے اور حکومت وقت کی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لیے ہیں۔ یہ وہ دور نہیں کہ آپ کو کوئی غلط حکم بھی دے تو آپ کہیں ٹھیک ہے۔سپریم کورٹ اس بات کو بارہا کہ چکی ہے کہ ہر بیوروکریٹ صرف اسی حکم کی پابندی کرے گا جو آئین کے مطابق ہے ۔چیئرمین نیب نے کہا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے ، ادارے موجود ہیں،ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ادارہ بہتر کام کر رہا ہے تو یہ کیا زبردستی ہے کہ آپ اسے سیاست میں ملوث کر دیں،ایک ادارہ سیاست میں ملوث ہونا نہیں چاہتا لیکن اس کو پارلیمنٹ کے فلور پر ایک، ایک گھنٹہ ہدف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،ہمارے بس میں جو کچھ ہے اور ہمارے پاس جوانڈر ٹرائل قیدی ہیں جاہے وہ وزیرا علیٰ تھے ، وزیر اعظم ہیں اور خواہ وہ ایک عام شہری ہے اور خواہ وہ ایک عام بیوروکریٹ ہے جو سہولیات ہمارے پاس ہیں وہ ہم اسے دے رہے ہیں۔اگر ان کا خیال ہو کہ ہمارے کمرے میریٹ یا سرینا جیسے ہیں تو ایسا نہیں ہے اور نہ ہی فارم ہائوس ہے۔ وہ سادہ سے کمرے ہیں اس میں زندگی کی ہر سہولت موجود ہے، کتابیں موجود ہیں، نماز کا انتظام ہے اور کھانا مناسب ہے اور میںخود وہاں گیا ہوں اور جتنے صاحب ثروت لوگ وہاں ہیں ان کا کھانا تو آتا ہی باہر سے ہے ان کو کھانے کے حوالہ سے کسی قسم کی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ میڈیکل کی سہولیات ہر وقت دستیاب ہیں، وہ وقت گزر گیا کہ اس طرح کی افواہیں پھیلا کر، اس قسم کی دشنام ظرازی کر کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹیں گے ،اب شائد ایسا نہیں ہو گا کیوں کہ وقت کا پہیہ اب آگے کی طرف رواں ہے اور ویسے بھی ماضی میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انسان کو ہمیشہ ماضی کو دفن کر دینا چاہیے ما سوائے ان واقعات کے لیے جو اس کے لیے سبق آموز ہوں جن سے وہ کوئی سبق لے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حال میں رہ رہے ہیں، ہم نے حال میں دیکھنا ہے اور اس کے ساتھ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم کون سے ایسے اقدامات کریں کہ ہمارا مستقبل بہتر سے بہتر ہو، ہمارے ہاں جہالت کا خاتمہ ہو اور لوگ باعزت زندگی گزاریں، ہمارے ایک ہاتھ میں جو کشکول ہے وہ نظر نہ آئے اور ہم باوقار ممالک کی صف میں ایک باوقار ملک کی حیثیت سے قائم و دائم رہیں۔انہوں نے کہا کہ نیب کا ہر اقدام پاکستان اور پاکستان کی عوام کی بہتری کے لیے ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ وزیر اعظم تھے، وہ وزیر اعلیٰ تھے ، چیف سیکرٹری تھے وہ یہ تھے وہ وہ تھے۔ آپ نے اب نیب کا سامنا کرنا ہے آپ اپنی توانائیاں نیب کے خلاف جارحانہ پراپیگنڈا کی بجائے زیادہ بہتر ہہو گا اپنے دفاع میں استعمال کریں تا کہ آپ بہتر دفاع پیش کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ چند دنوں سے اخباروں میں آرہا تھا کہ نیب کا حکومت کے ساتھ کوئی اختلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کا کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، نہ اتحاد ہے اور نہ محبت ہے،ہم نے صرف اپنا کام کرنا ہے حکومت وقت نے اپنا کام کرنا ہے ،وہ ایک بات ضرور کی تھی کہ نیب کا کنوکشن ریٹ سات نہیں صفر رہ گیا تھا وہ 70 فیصد ہے۔ میں نے حکومت وقت سے گذارش کی تھی کہ جب آپ نیب کے بارے میں بریفنگ لیں اور جب آپ نیب کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں تو برائے مہربانی ان آدمیوں سے نہ پوچھیں جن کے خلاف ریفرنس دائر ہو چکے ہیں اور جن کے خلاف تحقیقات ہو چکی ہے یا جن کے خلاف ریفرنسز ہیں، آپ ان لوگوں سے پوچھیں جو کہ نیب میں مطلوب نہیں ہیں تاکہ وہ آپ کو اپنا آزادانہ نقطہ نظر دے سکیں،مجھے معلوم نہیں کہ میری اس جسارت کا حکومت وقت نے برا منایا اور اخبارات نے کہا کہ حکومت تو بہت ناراض ہے۔ میرا خیال ہے اس میں ناراضگی والی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو تو اپنا دل بڑا رکھنا چاہئے۔ ا نہوں نے کہا کہ مضاربہ اسکینڈل میں لوگوںکو لوٹا گیا یہ پہلا کیس ہے جس میں احتساب عدالت نے 10ارب روپے جرمانہ کیا اس سے پہلے ایشیاء کی تاریخ میں کسی عدالت نے 10 ارب روپے جرمانہ نہیں کیا اس کا کریڈٹ نیب کی پراسیکیوشن برانچ اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو جاتا ہے جن کی کوشش کی وجہ سے یہ ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے احتساب کے لیے احتساب عدالتیں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم احتساب کا اداراہ ہونے کے باوجود ہر وقت احتساب کی زد میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال اب تک نیب نے تین ارب 64 کروڑ روپے بدعنوان عناصر سے ریکور کیے اور جائز مستحقین میں تقسیم کیے۔ انہوں نے کہا کہ نیب وائٹ کالر کرائمز کی تحقیقات کرتا ہے ،جرم لاہور سے شروع ہوتا ہے اور اسلام آباد سے ہوتا ہوا کراچی اور پھر مڈل ایسٹ کی مختلف ریاستیں اور اس کا اختتام جا کر امریکہ یا افریقہ کی کسی گمنام ریاست میں ہوتاہے ،اس کے لیے وقت بھی لگتا ہے اور اس کے لیے 90 دن کے ریمانڈ کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کا ہر اقدام صرف اور صرف پاکستان کے عوام اور ریاست پاکستان کے لیے ہے۔