صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ستمبر میں ختم کئے گئے امن مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ اسی طرح افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے ’’ رائٹرز‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی ہے۔ افغانستان کی تاریخ اور افغان عوام کے قبائلی مزاج پر نظر رکھنے والے اور ماضی میں افغانستان کے خلاف جارحیت میں ناکامی سے دوچار ہونے والوں کے مشوروں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور خود افغان حکومت کیلئے صائب مشوروں کا مرکزی نکتہ اور ہدف یہ ہے کہ افغان مسئلہ کا پر امن حل غیر ملکی فوجوں کی واپسی سے ہی ممکن ہے، امریکہ کو طالبان کے متعلق پالیسی تبدیل کرنا ہو گی۔ یہ جنگ صرف مذاکرات سے ہی جیتی جا سکتی ہے، بے گناہ لوگوں کے قتل سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ طالبان نے افغانستان کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور افغان عوام میں ان کی مقبولیت میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔امریکی قیادت کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ افغانستان سے نکلنا چاہتی ہے لیکن وہ نیٹو اورا مریکی افواج کی واپسی کیلئے جو حکمتِ عملی وضع کرنا چاہتی ہے کہ اس میں ایک ایسا مزاکراتی تصفیہ شامل ہو جس کے بعد امریکہ کو یہ موقع مل جائے کہ وہ افغانستان میں فتح کا اعلان کر کے وہاں سے نکل آئے ۔ اس کیلئے امریکہ یہ چاہتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کی جائے لیکن وہ دباؤ میں نظر آئیں جس سے اس کی برتری نظر آئے۔ یہی سوچ طالبان کی ہے انہوں نے اس جنگ میں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں وہ ایک طرح سے اپنے آپ کو فاتح تصور کرتے ہیں اور وہ سارا وزن امریکہ پر ڈال کر رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کو روس کی وہ غلطی نہیں دہرانی چاہئے تھی جو انہوں نے اس وقت افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اقتدار مقامی باشندوں کو منتقل نہ کر کے کی تھی اور اسی وقت افغان لڑائی افغان فوج کے حوالے کر دینی چاہئے تھی اور خود امریکہ کو باعزت طور پر افغانستان سے نکل جانا چاہئے تھا۔
اچھے دنوں کی امید میں آج تعلیم یافتہ افغانوں کی بڑی تعداد ملک کی تعمیرِ نو میں وہ دل چسپی لے رہی ہے جو شائد اس سے قبل نہیں لی گئی کیونکہ ان کو یقین ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو سرمایہ کاری افغانستان میں کی ہے اس کا پھل کسی نہ کسی دن ضرور آئے گا تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے تمام تر سرمایہ کاری سوچے سمجھے بغیر کی ہے اور اگر ایک جانب انہوں نے سماجی شعبے کو ترقی دینے کے نام پر اربوں ڈالرافغانستان منتقل کئے ہیں تو دوسری جانب انہوں نے افغان عوام کے دل جیتنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ایسے افغانوں کی تعداد بہت قلیل ہے جو امریکہ کو افغانستان کا دوست سمجھتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ لوگوں کی اکثریت امریکہ اورا س کے اتحادیوں کو یہاں سے سرخرو ہو کر نکلنے نہیں دے رہی، اس سچ سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ایسے افغانوں کو اس بات کی بھی تشویش ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یہاں سے چلے گئے تو کابل کا حکمران کون بنے گا؟ آج بھی افغانستان میں ایک وسیع حلقہ ایسا موجود ہے جو طالبان کو کسی طور قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، یہ حلقہ خود دو حصوں میں تقسیم ہے مثلاً ایک وہ جو طالبان اور امریکہ دونوں کو ناپسند کرتا ہے اور دوسرا وہ جو سمجھتا ہے کہ افغانستان کے ہر مسئلہ کا حل امریکہ کے پاس ہے۔ ایسے لوگوں کی بھی وسیع تعداد موجود ہے جو امریکہ کو غاصب اور قابض سمجھتے ہوئے صرف طالبان، حذبِ اسلامی یا دوسری مزاحمتی قوتوں کو افغانستان کا مستقبل قرار دیتے ہیں جو فی الوقت صرف غیر ملکی افواج کا انخلاء چاہتا ہے اور انخلاء کے بعد کیا ہو گا؟ اس سوال پر سوچنے کی ان کو فرصت نہیں ہے وہ صرف امریکہ سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ ان کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں ہے کہ امریکہ اورا تحادی ممالک نے افغانستان میں کتنی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ نہ انہیں ان ممالک کی افواج اور اسلحہ کے انبار سے ڈر ہے۔ جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان عوام مزاحمت کار گروہوں کے ہمراہ جو لڑائی لڑ رہے ہیں اس میں ان کو ماضی کی طرح نہ امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور نہ ایران ان کا مددگار ہے اور نہ کھل کے پاکستان اس لڑائی میں ان کی مدد کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ اتحادی فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان کے اقتدار پر قبضہ، اسلامی حکومت کا قیام یا پھر کچھ اور؟ جو قوتیں طالبان کے مقابلے میں پچھلے کئی سالوں کے دوران امریکہ کی مدد کے ذریعے مضبوط ہوئی ہیں، کیا وہ طالبان یا کسی دوسری مزحمتی قوت کو اس قدر آسانی کے ساتھ افغانستان کے اقتدار پر قابض ہونے دیں گی۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ بیرونی افواج کے انخلاء سے قبل اشتراکِ اقتدار کا فارمولہ طے ہو نئے آئین پر بات ہو، طرزِ حکمرانی کا تعین ہو، نظامِ حکومت کے اصول وضع کئے جائیں۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے فریقین کے مابین مذاکرات ہی بہترین ذریعہ ہیں جس کیلئے امریکہ کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور بگرام و دوسرے عقوبت خانوں میں بند افغانیوں کو رہا کرنا ہو گا، تب ہی مذاکرات نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔
امریکہ، طالبان مذاکرات بحال
Dec 09, 2019