ڈاکٹر محمد عارف28نومبر1995ء کو انتقال کر گئے اناللہ وانا الیہ راجعون۔ بے شک ہم سب اللہ کیلئے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانیوالے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں امریکہ میں علاج کی غرض سے مقیم تھے آخرکار معدے کا موذی مرض انہیں موت کی آغوش میں لے گیا ۔ اس سے پہلے ان کے کئی آپریشن بھی ہو چکے تھے لیکن انکی جواں مردی نے بیماری کو اعصاب پرسوار نہ ہونے دیا۔ ان دنوں وہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو کالج میں ڈائریکٹر ریسرچ‘ اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے صدر اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے فعال ٹرسٹی تھے۔آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں بی اے آنرز کیا ایم اے معاشیات میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔گورنمنٹ کالج لاہور سے 5 رول آف آنرز حاصل کیے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب سول سروس آف پاکستان کے تحریری امتحان میں مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں حصوں سے اول رہے۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے قانون کی اور ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی ۔ بوسٹن یونیورسٹی سے ایم اے پولیٹیکل اکانومی اور معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف انگریزی زبان میں بہت سی کتابیں لکھیں بلکہ اردو میں بھی طبع آزمائی کی۔ یہ بات بھی ناقابل فراموش ہے کہ ڈاکٹر محمد عارف جنہوں نے تعلیمی‘ انتظامی اور فنی میدانوں میں گرانقدر کامیابیاں حاصل کیں اس کے صلے میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ ’’حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا۔ آپ کی خداداد صلاحیتوں سے نہ صرف وطن عزیز بلکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی فیض یاب ہوتے رہے۔ جہاں آپ نے 5 سال تک خدمات انجام دیں۔ 30نومبر جمعہ کی صبح ڈاکٹر محمد عارف کی میت امریکہ سے لاہور پہنچی اور نمازجمعہ کے بعد جی او آر کی جامع مسجد کے باہر نماز جنازہ کے بعد ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ڈاکٹر محمد عارف کے جسدخاکی کو اشکبار آنکھوں‘ سسکیوں کے ماحول میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ڈاکٹر محمد عارف ‘ میتھ کے عظیم پروفیسر شمشاد لودھی کے داماد تھے ۔مرحوم نے وصیت میں یہ تاکید کردی تھی کہ میرا جنازہ اٹھانے سے گھر میں کسی ادارے کی کوئی چیز نہیں رہنی چاہیئے تاکہ آخرت کا حساب آسان ہو۔ انسان تو روز مرتے ہیں لیکن ڈاکٹر محمد عارف کی ناگہانی موت سے نہ صرف سول سروس آف پاکستان بلکہ ادبی دنیا بھی ایک دردمند انسان کے قلم سے محروم ہو گئی ہے اولڈراوین ایسوسی ایشن بھی ڈاکٹر صاحب کی رحلت سے یتیم ہو چکی تھی۔ بے شک ایسے عظیم المرتبت انسان کہاں مرتے ہیں بلکہ وہ تو ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔اس سے پہلے ڈاکٹر صاحب پنجاب بینک کے چیئرمین کے عہدے پر فائز بھی رہے اور اپنے دور میں انہوں نے بینک آف پنجاب کو ترقی کی نئی منزلوں سے روشناس کروایا بلکہ ملازمین کی فلاح وبہبود کیلئے کئی ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے آج بھی بینک آف پنجاب کے ملازمین ڈاکٹر صاحب کیلئے اپنے دل میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ ایک جانب وہ بینک آف پنجاب کے چیئرمین تھے دوسری جانب پنجاب صنعتی ترقیاتی بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کر رہے تھے۔ یہ بطور منیجنگ ڈائریکٹر ان کی ملازمین سے محبت اور شفقت کا ہی نتیجہ تھا کہ جہاں پہلے بمشکل دو بونس دیئے جاتے تھے وہاں ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے دس بونس ملنے لگے۔ وہ ادارہ جو پہلے عدم استحکام کا شکار تھا ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے نہ صرف مستحکم ہوا بلکہ اس ادارہ نے کروڑوں روپے کا منافع بھی کمایا۔مجھے آج تک ان کا وہ قول یاد ہے کہ ادارے ٹوٹنے کیلئے نہیں بنتے کیونکہ بہت سے انسانوں کا مستقبل ان سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پنجاب انڈسٹریل بور کو توڑنے کی فائل ان کی میز پر پہنچی انہوں نے نہ صرف اس فیصلے کی مخالفت کی بلکہ ممکن حد تک معاملے کو التوا میں بھی ڈالے رکھا۔ ڈاکٹر صاحب پہلے چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بھی رہے۔ جہاں انہوں نے ملازمین کیلئے PND فلیٹس کے نام سے ایک خوبصورت اور کشادہ کالونی بنائی جو جوہر ٹائون جیسے مہنگے علاقے میں قابل دید ہیـ وہاں رہنے والے لوگ ڈاکٹر صاحب کیلئے آج بھی دعا گو ہیں۔حسن اتفاق سے میںخود اس کالونی میں گیا تو بہترین کشادہ ماحول میں بنے ہوئے کوارٹروںاور ان کے سامنے پھولوں سے لدھے سے پارک کو دیکھ کر ایک مقامی شخص سے پوچھا یہ کالونی کس محکمے کی ہے اس نے جواب دیا یہ نہ پوچھیں یہ کس محکمے کی ہے بلکہ یہ پوچھیں کہ یہ کالونی کس عظیم انسان نے بنائی اور ہمیں مالکانہ پر ہمیشہ رہنے کیلئے دیدی۔ ان کا نام ڈاکٹر محمد عارف تھا یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میںآنسو بھر آئے اور ہاتھ دعا کیلئے آسمان کی جانب اٹھے۔ اسی لیے کہاجاتاہے کہ انسان تو دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں لیکن ان کے اچھے کام ہمیشہ ذہنوں اور دل میں زندہ رہتے ہیں ۔ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہورہا ہے کہ ڈاکٹر محمد عارف بظاہر جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوئے ہیں لیکن وہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ سیکرٹری فنانس کے انتہائی اہم عہدے پر کام کرتے ہوئے بھی ان کا قلم غریبوں کی غربت ختم کرنے میں مصروف عمل رہا کرتا تھا۔اس کے باوجود کہ انہیں دنیا سے رخصت ہوئے 24سال ہوچکے ہیں لیکن میری دعائوں میں وہ آج میں شامل ہیں ۔