لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) پروفیشنل وکلاء نے جعلی ڈگریوں کے بعد بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات میں دیئے جانے والے کھانوں پر پابندی کے قانون پر عملدرآمد کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے۔ چوہدری بشیر حسین ایڈووکیٹ کی سربراہی میں درجن سے زائد وکلاء کی طرف سے پاکستان بار کونسل کے انتخابات سے پہلے رٹ درخواست دائر کئے جانے کا امکان ہے۔ پاکستان بار کونسل کے انتخابات روان ماہ کے آخری ہفتے ہیں متوقع ہیں۔ جن میں ملک بھر سے وکلاء کی اعلیٰ ترین بار کونسل کے22ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ جن میں پنجاب سے11سندھ سے6خیبر پی کے خواہ سے2جبکہ اسلام آباد اور بلوچستان سے ایک ایک ممبر کا انتخاب ہو گا۔ بار کونسل ایکٹ اور وکلاء سے متعلق ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی بھی بار کونسل اور بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات میں کھانوں پر پابندی ہے مگر حالیہ پنجاب بار کونسل کے انتخابات میں امیدواروں نے ان احکامات کو ہوا میں اڑا دیا۔ پنجاب بار کونسل کے ایک امیدوار نے ووٹرز کو چالیس من مچھلی کھلائی۔ جس پر ایک دوسرے گروپ کے امیدوار نے ساٹھ من مچھلی کے ساتھ پارٹی کی۔ اس سمیت بڑی پارٹیاں کرنے والے امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا۔گھروں اور دفتروں میں دیئے جانے والے کھانے اس کے علاوہ تھے۔ پنجاب بار کونسل کے انتخابات میں کئی ماہ تک وکلاء اور ان کے کلرک روزانہ کئی کھانوں میں شریک ہوتے رہے۔ بہت ہی کم پارٹیوں میں برائلر مرغ دیا گیا۔ زیادہ تر مچھلی اور مٹن سے ووٹرز کی تواضع کی گئی۔ پروفیشنل وکلاء کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کے انتخابات میں ایسی پارٹیوں کا رجحان کم ہوتا ہے جبکہ قانون پر عمل بھی زیادہ کیا جاتا ہے۔ ان دونوں انتخابات میں انتہائی سیئنر وکلاء ووٹرز ہوتے ہیں جو خود احتسابی کی مثال قائم کرتے ہوئے قانون پر بہت حد تک عمل کرتے ہیں۔کھانوں پر پابندی کے قانون کی سب سے زیادہ خلاف ورزی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز اور صوبائی بار کونسلز کے انتخابات میں ہوتی ہے۔ پروفیشنل وکلاء کا کہنا ہے کہ کھانوں پر پابندی کے قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے عام اور متوسط وکیل کا انتخابات میں حصہ لینا محض خواب بن کر رہ گیا ہے۔ ووٹرز خود امیدواروں سے پرتکلف دعوت کی فرمائش کر دیتے ہیں جن کو پورا کرنا عام وکیل کے بس میں نہیں ہے۔ بشیر حسین چوہدری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ وہ سپریم کورٹ بار، پاکستان بار کونسل سمیت چھوٹی بار ایسوسی ایشنز کو بھی فریق بنائیں گے۔ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو فریق بنانے کا مقصد یہ ہو گا کہ سیئر وکلاء کی باڈی اس اہم قانون پر عملدرآمد کیلئے عدالتوں میں ان کی مدد کر سکے۔ اس قانون پر اسی صورت میں عملدرآمد ہو سکتا ہے جب عدالت کی طرف سے فیصلہ آجائے۔ عام وکلاء کا کہنا ہے کہ اس قانون پر اصل روح کے ساتھ عملدرآمد کروانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وکلاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب عدلیہ سے رجوع کیا تو ایسے وکلاء کی بھی ڈگریاں بوگس ثابت ہوئیں جو کئی سالوں تک مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ اب کھانے پر پابندی کے قانون پر عملدرآمد کیلئے بھی عدلیہ سے رجوع ہی مسلے کا حل ہے۔
بار انتخابات میں کھانوں کی پابندی،قانون پر عملدر آمد کیلئے اعلی عدلیہ سے رجوع کا فیصلہ
Dec 09, 2020