محبت اور جنگ میں جس طرح سب کچھ جائز ہوتا ہے اسی طرح سیاست میں بھی کچھ غلط متصور ہوتا ہے نہ ناجائز سمجھا جاتا ہے خواہ اخلاقیات و اقدار کی دھجیاں بکھیر دی جائیں اس لیے ہم نے سیاست میں اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیا، اقدار و اطوار کو بالائے طاق رکھ دیا۔ شدت کا رنگ چڑھا کر سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں بدل ڈالا، پارلیمنٹ کی سیاست نے ایسا روپ اختیار کیا کہ تھڑے پر بیٹھ کر تاش کھیلنے والے بھی شرمانے لگے، لب و لہجے اتنے ’’شائستہ‘‘ ہوئے کہ پارلیمنٹرین بی ڈی ممبر لگنے لگے۔ حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ترجمان اپنی اپنی نوکریاں پکی کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ کسی کی عزت کا خیال نہ کسی کے دکھ سکھ کا احساس۔ بس اپنی اپنی دھن میں گاتے چلے جا رہے ہیں۔ عقل سے اس قدر عاری ہیں کہ کسی کے دکھ اور غم میں رونا نہیں آتا تو رونے والی شکل بھی نہیں بنا سکتے۔ مخالفانہ سیاست اعصاب پر اتنی سوار کہ سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ شدت اور انتہا پسندی اس قدر کہ سیاسی اختلافات بھی ذاتیات اور دشمنی میں بدل گئے۔ ہفتہ، عشرہ قبل میاں نواز شریف ، شہباز شریف کی والدہ اور مریم و حمزہ کی دادی کا لندن میں انتقال ہوا تو دونوں طرف سے سیاست بازی شروع ہو گئی۔ مریم نواز شریف ا س وقت پشاور جلسے میں سٹیج پر بیٹھی تھیں جب دادی کے انتقال کی خبر ملی تو فوری طور پر مائیک پر آ کر بھرائی آواز اور نمناک آنکھوں کے ساتھ دادی کی جدائی کی خبر حاضرین کو سنائی اور رخصت لے کر بغیر خطاب کیے چل پڑیں۔ اسی دوران (ن) لیگی ترجمان مریم اورنگ زیب بھی دکانداری سجانے لگیں، انہوں نے کہا کہ مریم نواز کو 2 گھنٹے تاخیر سے اطلاع دی گئی ، (بھلا کوئی پوچھے کہ یہ بھی عمران خان کی ذمہ داری تھی کہ ’’لاگی‘‘ بھیج کر فوتگی کی اطلاع دیتے) دوسری طرف سے بھی تنخواہ داروں نے رزق ’’حلال‘‘ کرنا شروع کیا ، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے، انسانی قدروں کو بالائے طاق کیا رکھنا تھا ، دفن ہی کر دیا۔ کسی نے کہا کہ دیکھتے ہیں اب ’’مفرور‘‘ و ’’اشتہاری‘‘ والدہ کی تدفین کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ ’’والدہ کی میت کے ساتھ نواز شریف آئیں گے یا نہیں۔‘‘ کے عنوان کے تحت چینلز پر ’’سودا‘‘ بکنے لگا۔ ماہرین قانون سے آراء لی جانے لگیں، حکومتی اور (ن) لیگی رہنمائوں کو ساتھ ساتھ بٹھا کر سوال و جواب ہونے لگے کہ ’’نواز شریف آئیں گے یا نہیں ، آ گئے تو کیا ہو گا۔ نہ آئے تو کیا رہ جائے گا۔‘‘ ’’ترجمانوں‘‘ نے بہرحال دونوں طرف سے محاذ گرم رکھا ، کسی نے کہا کہ ’’حکمرانوں کو مرنا یاد نہیں‘‘ (حالانکہ اپوزیشن والے بھی حکمران ہی ہوتے ہیں)۔ دوسری طرف سے آواز آئی کہ ’’والدہ اور دادی کو پارسل کرتے بیٹے اور پوتوں کو ذرا شرم نہیں آئی ‘‘ لیکن کہنے والوں کو بھی شرم آئی نہ انسانیت کی رمق ان میں نظر آئی کہ میتوں کو پارسل کیا جاتا ہے نہ جنازے اور تابوت ٹی سی ایس ہوتے ہیں۔ احادیث اور سیرت طیبہ سے رہنمائی ملتی ہے کہ ایک جنازہ گزر رہا تھا ، آقا کریمؐ احترام میں اٹھ کھڑے ہوئے ، کسی صحابیؓ نے کہا کہ یارسول اللہ یہ تو یہودی کا جنازہ ہے تو محسن انسانیت نے فرمایا کہ انسان تو ہے نا۔ (رب کریم حدیث کے مفہوم میں کمی بیشی معاف فرما دے۔ آمین) ہمارے ہاں تو اسلام ہے نہ انسانیت ، اخلاقیات ہیں نہ اقدار۔ ہر کسی کو ’’نمبر بنانے‘‘ اور سیاست کی پڑی ہے۔ اقدار اور اخلاقیات جائیں بھاڑ میں ۔
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا
پھر دونوں ذرا نہیں شرماتے ، ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں کہ …؎
دیں گالیاں انہیں نے وہی بے دماغ ہیں
میں ، میرؔ کچھ کہا نہیں اپنی زبان سے
تاہم سیاسی اخلاقیات و اقدار سے عاری اس دور میں بھی کچھ لوگ باقی ہیں اور ان کا وجود سیاست میں کسی نعمت سے کم نہیں، چودھری برادران (چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی) کا تعلق ایسے ہی سیاسی خانوادہ و قبیلہ سے ہے جنہوں نے کسی لمحہ بھی مروت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا، جو کبھی بھی اخلاقیات و اقدار کو نہیں بھولے۔ ورنہ شہباز شریف نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا ، اتحاد مسلم لیگ کیلئے چودھریوں کی خواہش کو کمزوری جان کر ان کا ہاتھ کس طرح جھٹکا ، حالانکہ اس سے پہلے مشرف دور میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی 10 سالہ جلاوطنی کے دوران چودھری برادران نے شریف فیملی کے ساتھ کوئی برا سلوک تو نہیں کیا تھا۔ حمزہ شہباز شریف اور سلمان شہباز شریف اس عرصہ کے دوران پاکستان میں ہی رہے تھے جبکہ حمزہ شہباز شریف تو سیاست میںبھی سرگرم تھے۔ چودھری برادران نے نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ کے انتقال پر دکھ کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف میاں نواز شریف کو تعزیت کیلئے فون کیا بلکہ چودھری پرویز الٰہی ، مونس الٰہی شافع حسین اور دیگر کو ساتھ لے کر تعزیت کیلئے جاتی امراء پہنچے ، وہاں میاں شہباز شریف ، مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف سے تعزیت کی۔ چودھری ظہور الٰہی خاندان کی یہی خوبی اور شاندار روایت ہے جو سیاست میں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نبھا رہے ہیں ورنہ مجموعی صورتحال تو تقریباً ایسی ہی ہے کہ …؎
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھ
گھری ہوئی ہے طوائف تماشبینوں میں
اقدار سے گرتی سیاست اور چودھری برادران
Dec 09, 2020