ادب و صحافت کے شہسوار سعید آسی کی بے لاگ تبصروں سے بھری‘ کالموں پر مبنی‘ تجزیہ کاری حکومتی و نجی اداروں‘ شخصیات کے مختلف پہلوئوں پر تنقیدی‘ تنقیصی رہنما کتاب ’’تیری بکل دے وچ چور‘‘ اپنے اندر جھونپڑیوں سے محلات تک‘ تجسس‘ طوفان اور دھماکہ سے اپنی اپنی صلیب خود اٹھانے کی جرأت رندانہ لئے ہوئے ہے تاکہ مورخ ان کی اس انتہائی قیمتی تحریر سے اپنے اپنے گھروں کی دیواروں پر بال کھولے ہوئے اداسی کی وجہ جان سکے…؎؎
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
چار سو پندرہ صفحات پر مشتمل اس ادبی‘ علمی‘ صحافتی‘ تاریخی اور فکری شاہکار میں زہر کا تریاق‘ عشاق کی خبر‘ سلطانی جمہور کی تحقیر‘ ثالثی کے بکھیڑے‘ پولیس گردی‘ وکلاء گردی‘ دہشت گردی‘ سیاستدانوں کی سیاسی اور غیر سیاسی چالیں‘ ظالم کا ظلم‘ مظلوم کی مظلومیت جیسے عنوانات پر یوں قلم زنی کی ہے کہ قیامت کی نشانیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ وہ ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ایک کالم ’’محتسب کی خیر‘‘ 13 اگست 1914ء میں لکھتے ہیں۔ ’’اگر حشر سامانیوں کا اہتمام کرتی یہ اچھل کود دھماچوکڑی‘ شورا شوری‘ سینہ زوری پوری دیدہ دلیری کے ساتھ جاری و ساری رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں قوم کوخانہ جنگی میں دھکیل کر یوم آزادی کو خون آشام بنایا جاتا ہے۔ تو ماضی کی تخلیوں کے ڈسے ہم راندہ درگاہ مقہور و مجبور عوام الناس کیلئے آنے والا یوم آزادی مزید دربدری کا پیغام لیکر آرہا ہے اور پھر اس بارے میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہے گی کہ یہ طوفان کون اٹھاتا ہے۔ یہ بجلی کون گراتا ہے…؎
محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا‘ ساقی کا‘ خم کا مے کا پیمانے کا نام
اسی طرح اپنے ایک معروف کالم ’’عوام کی خدمت کا موجزن جذبہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ؎
دل کو تھاما ان کا دامن تھام کے
نکلے دونوں ہاتھ اپنے تھام کے
اگر اپنے مفادات کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ سودے بازی کرنا ہی عوام کی خدمت ہے تو پھر حضور والا۔ ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔‘‘ آج ذرا دکھایئے تو سہی کہ سلطانیٔ جمہور میں جمہور کا عنصر تو پائوں تلے کچلے جانے والے کیڑے مکوڑوں کی طرح عالیجائوں‘ ناخدائوں‘ کرم فرمائوں کے سامنے راندہ درگاہ عوام الناس کی صورت میں ہی موجود ہے۔‘‘
عظیم لکھاری سعید آسی کی زبردست تحقیقی کالموں پر مشتمل کتاب میں حالات و واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے اپنے خیالات‘ مسائل کے حل کے طورپر سامنے آتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے‘ کس کا پیدا کردہ اور کیسے حل ہو سکتا ہے۔ اس لئے ’’تیری بکل دے وچ چور‘‘ ایک رہنما کتاب ہے۔ وہ اپنے کالم بعنوان ’’پولیس گردی‘ وکلاء گردی اور دہشت گردی میں پھنسی عدل گستری‘‘ کا اختتام یوں کرتے ہیں کہ ’’… اپنی پیدا کردہ خرابیوں کا ایک دوسرے پر ملبہ ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی روش ترک کرکے پہلے ادارہ جاتی باہمی اعتماد سازی کی فضا پیدا کی جائے اور پھر ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اپنے اپنے تجربات شیئر کرکے اجتماعی طورپر اصلاح احوال کا کوئی راستہ نکالا جائے ورنہ ’’پولیس کا فرض مدد آپ کی‘‘ والے ماٹو کا حشر بھی ’’باکمال لوگ‘ لاجواب پرواز‘‘ والا ہی ہوا چاہتا ہے جس میں متلاشیان انصاف کیلئے خواری ہی خواری ہے۔ محض آٹو مشین والی اصلاح احوال معاشرے کے بدقماشوں کی سرکوبی نہیں کرسکتی۔‘‘
سعید آسی نے اپنی صحافتی زندگی میں ہمیشہ حق سچ کی بات کی ہے۔ وہ اپنی تجاویز میں دانستہ طور پر برائی کا ساتھ نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں ’’میرا یہ المیہ ہے کہ میں زہر ہلاہل کو کبھی بھی قند نہیں کہہ پایا چنانچہ میرا آئین اور اس کے تحت قائم سسٹم پر یقین ہے تو آئین اور اس کے تحت قائم سسٹم کے ساتھ کھڑا ہونا میری مجبوری ہے۔ چنانچہ میرا یہی تجسس آپ کو میرے کالموں میں جابجا بکھرا ہوا نظر آئے گا جو روزنامہ نوائے وقت میں 2014ء سے 2017ء تک شائع ہونے والے میرے کالموں میں سے منتخب کئے گئے ہیں۔
اس عظیم کالم نویس نے چن چن کر بکل سے چور نکالے ہیں اور قارئین کو احساس دلایا ہے کہ تازہ دم ہوجائیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں، اپنی چارپائی کے نیچے ڈنگوری مار کر دیکھ لیں کوئی زہریلا کیڑا نہ چھپا ہو۔ اپنا جائزہ لیں کہ آستین کا سانپ نہ ہو اگر ایسا نہ کیا گیا اپنا جائزہ نہ لیا گیا تو پھر ردعمل کے طور پر راستہ انقلاب اور تبدیلی کو جاتا دکھائی دیتا ہے …؎
پائوں جمتے ہیں نہ دستار سنبھالی جائے
اب تو بس عزت سادات بچالی جائے
بھوک بڑھنا ہی بغاوت کا سبب ہے آسی
یہ روایت میری سرکار نہ ڈالی جائے
سعید آسی کی بہترین کتاب ’’میری بکل دے وچ چور‘‘ عالمی فکر بھی سیاسی، ثقافتی تخلیقی کالموں پر مشتمل ہے۔ جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل لاہور کے منتظمین علامہ عبدالستار عاصم اور محمد فاروق چوہان نے شائع کیا ہے۔
بامعنی رنگین سرورق 415 صفحات میں 118 کالم ہیں۔ اس دستاویز کا انتساب مجید نظامی مرحوم کے نام ہے جو جرأت اظہار کا پیکر تھے۔ ’’تیری بکل دے وچ چور‘‘ کا ہر ادارہ کی لائبریری میں ہونا ضروری ہے اور باہمت صحافی سعید آسی بہت مبارک اور ستائش کے مستحق ہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ…؎
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
٭…٭…٭